عورت، طلاق اور مردانہ معاشرہ


ہماری سوسائٹی میں شاید عورت ہونا گناہ ہے۔ یا یہ ایک الگ مخلوق ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کہیں کسی راہ گزر پر کوئی عورت گزر رہی ہوتی ہے تو مردانہ آنکھیں اسے گھور گھور کر دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ ایک خاتون سے پوچھ لیا کہ پردہ کیوں کرتی ہیں۔ تو وہ کہنے لگیں کہ پردہ وہ اس لیے کرتی ہیں تا کہ وہ مردانہ نگاہوں سے محفوظ رہیں۔ یعنی موجودہ سماج میں مردانہ آنکھیں کس قدر خطرے کی علامت بنتی جارہی ہیں۔ حالانکہ مردانہ آنکھوں سے اچھے سے اچھا کام کیا جاتا ہے۔ پھر حیرت کی بات یہ کہ اگر اسی مجمع میں سے اسی مرد کی گھر کا کوئی خاتون اسی راہ گزر سے گزر رہی ہو۔ تو اس کی نگاہیں نیچے رہ جاتی ہیں۔ بس اس کے دل میں یہ گمان آتا ہے کہ کاش ان کی عورتیں گھر سے باہر نہیں نکلا کریں۔ کیوں بھئی یہ مردانہ سماج ہے اس لیے۔

خواتین گھروں سے باہر نہ نکلا کریں کہ کہیں کل کلاں کوئی اس کے بھائی یا باپ کی مردانگی پہ سوال نہ اٹھائے۔ کیوں اگر خاتون گھر سے باہر نکلی۔ اس نے گھر کے لیے سودا سلف لاکر دے دیے یا کوئی خاتون کسی ادارے میں جاب کرتی ہے۔ تو اس میں کیا قباحت ہے اگر وہ اس طرح کرتی ہے تو یقیناًوہ اپنے گھر کے فرد کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد ہرگز یہ نہ ہوا کہ وہ خاتون بے حیا ہے۔ یہ تو مردانہ سوچ ہے جس کے دل و دماغ میں بے حیائی کی درخت نشونما پا رہی ہے۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ ہماری سوسائٹی میں طلاق کا ریشو زیادہ ہے۔ آج تک اس پر ریسرچ ورک نہیں ہوا کہ طلاق کی بنیادی وجوہات کیا ہیں اس ریشو کو کم کس طرح کیا جاتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان ذرا سی بات پہ ان بن ہوئی۔ یا ساس اور بہو کی نہیں لگی وہ علیحدگی کی صورت بن جاتی ہے۔ ہمارے سامنے اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ طلاق کے بعد مرد تو اللہ کے فضل و کرم سے کئی شادیاں کر لیتا ہے۔ لیکن عورت کی ذات پر طلاق کا جو لیبل لگایا جاتا ہے وہ زندگی بھر اس کے گلے کا طوق بن جاتا ہے۔ ہزارہا کوشش اور اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کے باوجود وہ اس لیبل کو اپنے وجود کے ساتھ نہیں مٹا سکتی جو اس کے سابقہ شوہر نے تحفے میں تھما دیا ہے۔

مرد طلاق کے بعد کئی گھر بسا سکتاہے۔ نبی کی سنت پورا کرتا ہے اسلام میں چار شادیوں کی گنجائش نے اس کے کام میں آسانی پیدا کی ہے وہ یہ شادیاں فخریہ انداز میں کرسکتا ہے۔ لیکن ایک طلاق یافتہ عورت کے لیے مشرقی معاشرے میں دوسری شادی معیوب سمجھی جاتی ہے۔ کیوں معیوب سمجھا جاتا ہے اس لیے کہ وہ پہلے کسی مرد سے مباشرت کر چکی ہوتی ہے۔ پھر طلاق کے بعد سوالات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ طلاق کی وجوہات کیا تھے؟ مرد کے گھر والوں سے لڑتی تھیں؟ گھر کا کام نہیں کرتی تھیں؟ مرد کو خوش نہیں رکھ سکتا تھا؟ بانجھ پن کا شکار تھیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن معاشرہ مرد سے کبھی یہ سوال نہیں کر سکتا۔ آخر وہ وجوہات کیا تھے جن کو بنیاد بنا کر عورت بیوی سے طلاق یافتہ بن گئی۔

اگر طلاق یافتہ عورت دوسری بار شادی پر راضی بھی ہوجائے تو لڑکے والو ں کی طرف سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ یا سوسائٹی لڑکے کے گھر والوں کے کان بھرنا شروع کر دیتی ہے۔ لڑکے کی شادی کس سے کروا رہے ہو؟ ایک طلاق یافتہ لڑکی سے؟ اس لڑکی سے جو پہلے سے کسی اور گھر سے نکالی گئی ہے۔ ہزاروں باتوں کا بتنگڑ بنا کر اس عورت کی خوشیوں پہ پانی پھیر دیا جاتا ہے جو اسے ملنے والی ہوتی ہیں۔ حالانکہ طلاق میں عورت کا کوئی قصور نہ بھی ہو تو بھی سماج قصوروار عورت ہی کو ٹھہراتا ہے۔ البتہ مرد اس معاملے میں بری الزمہ قرار پاتا ہے۔

عمران خان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جمائما خان سے شادی کرتا ہے۔ اس سے دو بچے پیدا ہوتے ہیں۔ جمائما کو طلاق دیتا ہے۔ ریحام خان کو زندگی میں لاتا ہے۔ ریحام خان کو زندگی سے نکالتا ہے۔ ایک اور عورت کو زندگی کے اندر داخل کرا لیتا ہے۔ آپ کے پاس دولت ہو شہرت ہو۔ آپ کئی شادیاں کر لیں پھر طلاق دیں نئی شادی رچا لیں دنیا آپ کو کچھ نہیں کہے گی۔ ہاں اس عورت کو ضرور کہے گی۔ جو مظلوم ہے محکوم ہے۔ اس معاشرے میں جس معاشرے کو مردانہ معاشرہ کہا جاتا ہے۔

میری ماں ایک طلاق یافتہ عورت ہے۔ جب میں چھ ماہ کا تھا۔ تو میری ماں کو اس مرد کی زبانی تین لفظوں کا تحفہ موصول ہوئے جسے معاشرے نے اسے تین لفظوں کی ادائیگی کے لیے با اختیار بنایا تھا۔ جو اپنی مردانگی میں آکر عورت کو سونپ دیتی ہے۔ طلاق کا طوق ایک عورت عمر بھر اپنے گلے کا ہار سمجھ کر لٹکاتی رہی۔ جب کہ اس کا بیٹا عمر بھر ایک والد کے سہارے کے بغیر جیتا رہا۔ ایک جیتا جاگتا باپ جس کی آنکھوں کے سامنے اس کا بیٹا غیروں کے گھر پلتا رہا۔ اس باپ نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا کہ اس نے جو عمل کیا اس عمل سے اس کے بیٹے پر کیا بیت رہی ہے۔ یا اس کی سابقہ بیوی پر کیا بیتی چلی جا رہی ہے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2