پشتون تحفظ موومنٹ کے 22 کرداروں کی کہانیاں


سوال کا جواب دینے کے بعد کچھ دیر کے لئے ادھر اس کی زبان اور لفظوں کا رابطہ ٹوٹ گیا اور ادھر میں اتنا بے بس ہوا کہ اس کے ٹوٹتے لفظوں کو اپنے لفظوں کا پیوند لگا کر منقطع کلام کو دوام بخش سکوں۔ میں نے اس کے لہجے کو آنسووں سے تر ہوتے محسوس کیا اور یہاں میری آنکھوں میں آنسووں نے انگڑائی لی۔ جواب جو ان آنسووں کا محرک بنا کچھ یوں تھا۔

”ہم پر اپنے خاندان والوں کی طرف سے اس قدر دباؤ تھا کہ منظور پشتین کے والد نے انہیں سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لئے جیب خرچ دینا بند کردیا تھا۔ وہ اس قدر خوددار تھے کہ دو دن تک بھوکے رہے، نہ کسی ساتھی سے کچھ مانگا اور نہ ہی کسی سے ذکر کیا۔ دو دن کی بھوک اس وقت مٹ گئی جب ایک دوست نے باقی ساتھیوں کو کھانے پر دعوت دی جس میں منظور پشتین بھی مدعو تھے“۔

منظور پشتین نہیں بلکہ ان بائیس نوجوانوں میں ہر ایک کی کہانی اتنی ہی دردناک ہے۔
یہ اس تحریک کا ہراول دستہ تھا جنہوں نے اس سال جنوری میں ڈیرہ اسماعیل سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی اور دس دن تک دھرنا دیا۔
جس نوجوان نے منظور پشتین کے متعلق یہ واقعہ سنایا وہ خود بھی انہی کیفیتوں اور حالتوں سے گزرے چکے ہیں۔

منگنی ہوتے ہی اس نے اپنی منگیتر کو مستقبل کے حسین خواب دکھانے کی بجائے کہا کہ میں ایک سوشل ایکٹویسٹ ہوں اور ایک ایسے پُرخار راستے پر چل پڑا ہوں جس میں مجھے تمہاری مدد اور حوصلے کی ضرورت ہوگی۔
وہ جس دن لانگ مارچ کے لئے گھر سے نکلا تو اس وقت ان کی شادی ہوئے چھ مہینے گزر چکے تھے۔
جس وقت وہ اپنے شوہر کو الوداع کہہ رہی تھی تو بقول نوجوان کے میں خاموشی کی گرفت میں تھا جبکہ میری بیوی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
زندگی بھر جینے کا حسین خواب آنسووں کی صورت آنکھوں ہی میں مر چکا تھا۔

ایک اور جوان تھا جس کی ماں سخت بیمار تھی اور وہ ہمہ وقت تیمارداری میں مصروف تھا۔
لیکن جب لانگ مارچ پر نکلنے کی گھڑی آن پہنچی تو اس نے اپنی ماں کی تیمارداری کی ذمہ داری دوسرے بھائی کو سونپ دی۔

ایک اور جوان سی ایس ایس کی تیاری کے لئے پشاور میں تھا اور تقریباً تین ہفتے بعد اس کا امتحان تھا کہ رات کو منظور پشتین نے فون کرکے کہا کہ لانگ مارچ میں شرکت کرنے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ جائیں۔
وہ رات ہی کو روانہ ہوا اور ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گیا۔
اسے یہ خوف دامن گیر تھی کہ گھر والے لانگ مارچ کا ساتھ دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس نے اپنی ماں سے کہا کہ براہ مہربانی میرا بستر تیار کردیں۔
پوچھا کیوں؟ جواب دیا تبلیغ پر جارہا ہوں۔
ماں حیرت سے پوچھ رہی ہے!
بیٹا! تم اور تبلیغ؟
ہاں، ماں ذہن کے بدلنے میں زیادہ وقت تو نہیں لگتا۔
ماں نے خُداحافِظ کہا اور بیٹے نے اس سے آخری ملاقات سمجھ کر الوداع۔

گھر والوں کا خوف بے جا نہیں تھا کیونکہ انہوں نے مسلح طالبان کے خلاف ہونے والی جنگ کے دوران بمباری، وطن بدری، ٹارگٹ کلنگ، اغواء، لوگوں کی جبری گمشدگی، جبر کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ہمیشہ کے لئے خاموش کرنے کا عمل نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا بلکہ اس سے خود بھی بھگت چکے تھے۔

یہ سبھی جوان اپنے پیاروں سے بچھڑتے وقت اس سے آخری ملاقات سمجھ رہے تھے کیونکہ انہیں لانگ مارچ نہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا جو انہوں نے سنی ان سنی کر دیا تھا۔
دھمکی دی گئی تھی کہ لانگ مارچ سے واپسی پر تیز چُھریاں تم لوگوں کی گردنوں کی منتظر ہوں گی۔
مگر ان بائیس نوجوانوں نے گردنیں ہتھیلیوں پر رکھ دیں اور ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد کی طرف چل پڑے۔
جوں جوں وہ آگے بڑھتے رہے دھمکی آمیز فونز کی تعداد بھی اضافہ ہوتا گیا۔

بقول ایک نوجوان کے کہ ہم نے فون کرنے والے نامعلوم افراد کو کہا کہ وزیرستان کے ڈھکے چھپے پہاڑوں کی بجائے ہم پاکستان کی شہری علاقوں کی چٹیل میدانوں میں مرنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ کم از کم ہمارے خاندان والوں کو ہماری لاشیں تو مل جائیں گی۔

جب دھمکیوں کی شدت میں مزید اضافہ ہوا تو ان بائیس ساتھیوں نے مل کر عہد کیا کہ زندگی اور موت یعنی دونوں صورتوں میں آخری دم تک ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
اس وقت یہ نوجوان محسود تحفظ موومنٹ کا ہراول دستہ تھے اور آج پشتون تحفظ موومنٹ کے۔

پشتو شاعر صاحب شاہ صابر کا پشتو شعر ہے۔
ترجمہ: جب زبانوں کو تالا اور کانوں میں سییسہ ڈالا گیا تھا،
اس وقت یہی چند پرندے تھے جو چہچہا رہے تھے۔

(عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ منسلک ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar