قوم کے لئے ایک دن میں دو دو خوش خبریاں


جمعہ کے روز جب انتشار اور مصائب میں گھرے پاکستان کے باشندے اس خوف و ہراس کی کیفیت میں بیدار ہو رہے تھے کہ لبیک تحریک لاہور میں دو اپریل سے جاری دھرنے کے دوران حکومت کی لاتعلقی اور عدم تعاون کے سبب ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع کردے گی اور شہروں کے اندر یادوسرے شہروں کو جانے والے راستوں کو روک کر حکومت کی نااہلی، کمزوری اور بے وقوفی کا انتقام عام شہریوں سے لیا جائے گا۔ اس طرح پنجاب کی حد تک تو زندگی معطل ہونے کا اندیشہ بڑھ چکا تھا اور کراچی میں لبیک تحریک کے رہنما اپنے سالار اعظم علامہ خادم رضوی کے حکم کے مطابق کراچی میں بھی زندگی معطل کرنے کے لئے پر تول رہے تھے۔ تاکہ اس احتجاج کی گونج اسلام آباد تک پہنچے اور حکمران مطالبات مان کر گلو خلاصی کروانے میں عافیت سمجھیں۔ تاہم  تیرہ اپریل کو جمعہ کا مبارک دن  ان کے لئے یہ نوید لے کر آیا کہ فیض آباد معاہدہ پر مکمل عمل درآمد کے وعدہ کی یقین دہانی کےبعد یہ احتجاج مؤخر کردیا گیا ہے۔ پاکستانی عوام کے علاوہ دانشور بھی ابھی یہ سمجھنے کی کوشش کررہے تھے کہ اس اچانک تبدیلی قلب کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ اسلام آباد سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے قوم کو یہ خوش خبری سنائی کہ عوام کا یہ حق ہے کہ ان کی رہنمائی کا اچھے کردار کے لوگ کریں۔ چیف جسٹس کا یہ تبصرہ ان پچاس سے زائد صفحات کے علاوہ تھا جن پر لکھا فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بعد میں پڑھ کر سنایا اور جس میں آئین کی شق باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ یوں قوم کو ایک ہی دن میں دو خوشیاں نصیب ہوئیں تاہم اگر پاک فوج کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سیاست دانوں کے دنگل اور مذہبی رہنماؤں کی کشتی کے مقابلوں پر مستقل پابندی لگا کر قوم کو’ نیک اور صالح قیادت‘ فراہم کرنے کا اہتمام بھی کردیں تو خوشیوں کی یہ مثلث مکمل ہو سکتی ہے۔

گو بابا رحمت کہلوانے اور اسی طرح کا کردار دکھانے کے شوقین چیف جسٹس یہ کہتے ہیں کہ ملک میں تمام فیصلے آئین کے مطابق ہوں گے اور وہ بنفس نفیس آئین توڑنے والوں کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔ تاہم داتا دربار کے باہر دس روز تک جس طرح ملک کی عدالتوں کے حکم اور اور نافذ قانون کی دھجیاں بکھیری گئیں اور جس کا مظاہرہ نومبر میں اسلام آباد میں سپریم کورٹ سے چند کلومیٹر دور فیض آباد کے مقام پر کیا گیا ۔۔۔ اس کی روشنی میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ وقت آنے پر اپنے سخت مؤقف میں تبدیلی کریں گے اور اس بات پر غور کریں گے کہ ملک کے عوام کے لئے ایماندار قیادت زیادہ ضروری ہے یا آئین کی غیر واضح تفسیر جس کے تحت لولی لنگڑی جمہویت کا نام نہاد تحفظ کیا جاتا ہے۔ ملک میں جب حکومت غیر مؤثر اور بے اختیار ہو اور سپریم کورٹ سو موٹو کی چھڑی کے سہارے انسانوں کے حقوق کا تحفظ ہی نہ کرتی ہو بلکہ حکومتی معاملات، مالی امور اور انتظامی فیصلوں پر اثر انداز ہونے پر ’مجبور‘ ہو چکی ہو تو اسے ’ارفع کردار‘ کی حامل قیادت کے لئے عوام کے حق کا تحفظ بھی کرنا ہوگا۔ یہ تحفظ محض سابق وزیر اعظم کو تاحیات سیاسی عہدے سے نااہل قرار دے کر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے شاید سپریم کورٹ کے ججوں کو اپنے پیش روؤں کی اعلیٰ رویات کی روشنی میں اس قیادت کی تلاش میں عملی کردار بھی ادا کرنا پڑے۔ اب لوگ خواہ کچھ بھی کہیں لیکن 1958، 1969، 1977 اور 1999 میں عدالت عظمیٰ کے ججوں نے قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں ہی فوج کی طرف سے آئین کو مسترد کرنے یا معطل کرنے یا اس میں ترمیم و تبدیلی کرنے کا جو فیصلہ کیا، عدالتوں نے نہات وفاداری سے اس آواز میں آواز ملائی۔ شاید سانحات سے گزرتی اس قوم پر ایک بار پھر ویسا ہی قیامت خیز وقت آن وارد ہؤا ہے کہ سپریم کورٹ کا بابا رحمتا آئین کی کوئی ایسی وضاحت کرے کہ جھوٹے اور بددیانت لیڈروں پر تاحیات پابندی کے ’روشن‘ فیصلہ کو امر بنایا جا سکے اور چیف جسٹس ثاقب نثار کے فرمان کے مطابق اعلیٰ کردار کی حامل قیادت کے لئے عوام کے حق کی تکمیل ہو سکے۔

یہ انہونی چونکہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور ہماری عدالتیں اور فوج تسلسل سے عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں کہ ملک کے سیاست دان لٹیرے ہیں اور حقیقی ’ صادق و امین‘ جج اور جنرل اگر مسلسل ان پر نظر نہ رکھتے تو یہ باقی ماندہ ملک بھی بیچ کر کھا جاتے۔ کیوں کہ نسل در نسل لوگوں کو یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ سیاست کا مطلب دھوکہ اور جمہوریت جھوٹ کا نام ہے جبکہ وردی و عبا پوش ہی دراصل ان کے محافظ ہیں۔ اب جھوٹوں اور بے ایمانوں کو تاحیات ملک کے عوام سے دور رکھنے کا حکم نامہ بھی آگیا ہے اور چیف جسٹس کی یہ خواہش بھی کہ صرف اعلیٰ کردار کے لوگ ہی رہنمائی کے حقدار ہوں گے تو ملک کے آئین میں سے ہی اس نیک مقصد کے لئے راستہ نکالنا بھی سپریم کورٹ کا ہی کام ہے۔ اس کا موقع بھی ہے اور وقت نے اختیار کی لاٹھی بھی جسٹس ثاقب نثار جیسے رحمت نما منصف کے ہاتھ میں پکڑا دی ہے۔ موقع کا معاملہ یوں ہے کہ موجود ہ بے عمل حکومت اور ناکام پارلیمنٹ پانچ چھ ہفتے میں اپنی مدت پوری کرنے والی ہے۔ انتخاب کے انعقاد کے لئے عبوری حکومت مقرر کی جائے گی۔ سیاست دان اقتدار کی خواہش میں جوتوں میں دال بانٹ کر کھانے کے پرانے اور آزمودہ کھیل میں مصروف ہیں اس لئے کسی بھلے آدمی کو یہ توقع نہیں ہے کہ وہ کسی قابل اور اہل شخص کو زمام اقتدار سونپ سکتے ہیں۔ ایسے میں سپریم کورٹ کے پاس نادر موقع ہے کہ قوم کو وہ اصلی اور سچے رہنما فراہم کرے جس کا وعدہ آج چیف جسٹس نے بھری عدالت میں کیا ہے۔ اور اگر یہ عبوری حکومت سپریم کورٹ کی مرضی اور فوج کی ضرورتوں کے مطابق کام کرنے کے قابل ثابت ہو تو سوموٹو اختیار سے آئین کی کوئی ایسی توجیہ کی جانی چاہئے کہ عوام کو ان کا حق ملے یعنی اہل اور ایماندار لیڈر میسر آ ئیں۔ اس طرح اس واویلا کا بھی کچھ فائدہ ہوجائے گا جو گزشتہ دو برس سے ملک کے طول و عرض میں بلند ہو رہا ہے کہ طویل المدت ٹیکنو کریٹ حکومت ہی اس ملک کے مسائل کا حل ہے۔

یہ سہانے خواب ہیں۔ اور اس وقت چونکہ ملک کے دو طاقت ور ادارے اس خواب کو عوام کی زندگیوں میں اتارنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں تو اس صدا کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے کہ حکمرانی دراصل عوام کا حق ہے اور وہ اس کا اظہار اپنے ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں ۔ جب سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کے نزدیک منتخب حکومت کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہے اور ججوں کو ہی اوور ٹائم کے بغیر کام کرتے ہوئے امور حکومت بھی دیکھنا پڑتے ہیں۔ بس ججوں کو صرف فوجی امور کی طرف سے اطمینان ہے کہ وہ ادارہ اپنے فرائض جاں فشانی سے سرانجام دے رہا ہے اور کسی قیمت پر قوم کے مفاد کا سودا نہ کرے گا اور نہ کرنے کی اجازت دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ یاد دہانی کروائی ہے کہ فاٹا میں فوج کی قربانیوں کو فراموش نہ کیا جائے اور یہ کہ فاٹا میں امن بحال ہؤا تو ایک نئی تحریک شروع کردی گئی۔ گو کہ ان کا اشارہ پشتون عوام کے حقوق کے لئے شروع ہونے والی تحریک پی ٹی ایم کی طرف تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایسی تحریکیں برداشت نہیں کی جائیں گی جن کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہوں۔لیکن یہاں شاید پنجابی کا یہ محاورہ عملی طور سے درست ثابت ہؤا کہ ’ دھئے نی تینوں آکھیا، بہوئے نی تو کن کر‘۔ عین اسی وقت داتا دربار میں دس روز میلہ لگانے کے بعد لبیک تحریک کے رہنما لاہور شہر کے علاوہ ملک بھر میں فساد پھیلانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے تاکہ ملک اور صوبے کی بے جان حکومت کی لاش کو گلی کوچوں میں گھسیٹا جا سکے۔ یہ سب لیڈر چونکہ پنجابی ہیں اور ان کے مقاصد دینی سے زیادہ سیاسی ہیں ، اس لئے دل کے چور نے آرمی چیف کے بیان کو اس پنجابی محاورے کی روشنی میں سمجھتے ہوئے قلابازی کھانے کا مشورہ دیا ۔ یوں آج قوم ایک بحران کا سامنا کرنے کے انتظار میں اطمینان سے معمولات زندگی کی طرف لوٹنے کی خوشی مناہی رہی تھی کہ ارفع اور ایماندار قیادت کے بارے میں سپریم کورٹ کے حکم نامہ صورت میں دوسری خوش خبری بھی سامنے آگئی۔

 یہ خوشی البتہ ادھوری یوں ہے کہ صرف ایک لیڈر نااہل ہؤا ہے اور اصلی قائد کی نشاندہی ابھی باقی ہے۔ جہانگیر ترین اور تحریک انصاف تو واضح کرچکے ہیں کہ یہ فیصلہ ان کے بارے میں نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے اپنے خلاف شق باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کے فیصلہ میں ہونے والی ناانصافی کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی ہوئی ہے۔ اور انہیں کامل یقین ہے کہ وہ اس میں سرخرو ہوں گے۔ لیکن نواز شریف نے چونکہ قوم کو لوٹا ہے اس لئے اسے تاحیات نااہل ہی رہنا چاہئے۔ سپریم کورٹ لگے ہاتھوں اگر جہانگیر ترین کی یہ خواہش پوری کردے اور انصاف کو ’سچا‘ ثابت کرنے کے لئے انہیں قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے تو حق بہ حق دار رسید والا معاملہ ہو جائے گا۔ پھر نواز شریف ٹاپتے رہیں۔

خوشیوں کی اس نامکمل تکون کو کئی بار مکمل کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے لیکن اس کے نتیجے میں قوم کے مصائب اور ملک کے مسائل میں اضافہ ہی ہؤا ہے۔ مرض چونکہ پرانا ہے اس لئے بے دھڑک پرانی دوا ہی کو استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن اس مرحلے پر قوم کو اس کا حق دلوانے کے لئے ’تن من دھن‘ قربان کرنے کی لگن سے جتے سب لوگوں یا اداروں کو یہ سوچ سمجھ لینا چاہئے کہ جمہوریت ایک خواب یا نعرہ نہیں ہے۔ یہ اس ملک کی بنیاد ہے۔ اس بنیاد کے بغیر یہ ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ اور ’صادق و امین‘ کا جو پھندا آج نواز شریف کے لئے تیار کیا گیا ہے، وہ کل کسی دوسرے کی گردن مین بھی فٹ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ پاکستان کی مختصر تاریخ سے ہم نے کچھ اور سیکھا ہو یا نہ لیکن یہ سبق تو سب کے سامنے ہے کہ وقت جامد نہیں ہے۔ بھٹو کو پھانسی دینے والی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اسی بھٹو کی بیٹی کی شہادت پر فاتحہ خوانی کے لئے اعتزاز احسن کے ہمراہ بلاول ہاؤس میں حاضری دینے پہنچے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali