بیانے کا آخری معرکہ اور اجنبی دلائل ۔۔۔


\"salmanوجاھت مسعود صاحب (کہ ملائیت و حریت کے اس معرکے میں \”ھم سب\” کے امام ھیں) کی خدمت میں ایک تاثر بصورت تجویز پیش ہے کہ اپنے استدلال میں مغربی مفکرین کی بجائے اقبال اور دور جدید و قدیم کے دوسرے مسلم مفکرین کی آرا و اقوال کو بنیاد بنائیں تا کہ سماج میں سیکولر ازم سے اجنبیت کم ھو اور اسے بھی کسی درجے میں قبول عام ملے۔

سنجیدگی اور باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو بنیادی نصوص اور قدیم کلاسیکل علما، ائمہ، حکما اور مسلم سماجی و سیاسی مفکرین کے ہاں بھی ریاست و سیاست سی متعلق ایسے مباحث و نقطہ نظر مل جاتے ھیں جو درپیش فکری مجادلہ میں جدید بیانیہ کی کئی پہلووں سے تائید کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ دلائل مبسوط اور یکجا نہ ہوں گے کیونکہ اس وقت کے لکھنے اور سوچنے والوں کے سامنے دور حاضر کی جدید ریاست نہ تھی مگر پھر بھی بنیادی اصولوں پر تائیدی موقف موجود ہے اور مزید تلاش کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر قراؑنی آیت ۔ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۔ کو سیاق وسباق اور ترتیب میں غور کرنے پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آیت الکرسی میں اپنی مکمل طاقت کا بیان کرنے کے فورا بعد ’دین میں کوئی جبر نہیں‘ کا اصول بیان کرنا مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت پر دلالت کرتا ہے۔ یہی مذہبی آزادی قرآن کا ایک خاص موضوع ہے اور اس پر قرآنی نصوص ہی میں اچھا خاصا مواد موجود ہے۔ اسلام کو ایک دین کے طور پر ریاست کے ذریعے نافذ کیے جانے کے نظریہ کا رد کرنے کے لیے یہ مواد کار آمد ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور جمہوریت کی مسلمہ تعریف اور قرآن کی مذہبی آزادی میں بنیادی اور اصولی تضادات بہت کم رہ جاتے ہیں۔

راقم کی نظر میں مندرجہ بالا خط و بنائے استدلال متبادل بیانیےکو عوام میں مقبول و منظور کروا کر مسلمہ جمہوری اصولوں پر ریاست و سیاست کی تعمیر کے ہدف کے پر امن حصول کا ذریعہ بن سکتا ھے ھمارے سیکولر رجحان کے بھائیوں (جن میں راقم خود کو بھی شامل کرتا ھے)، کو اس حقیقت کے ادراک کی اشد اور جلد ضرورت ھے کہ بحیثیت قوم و معاشرہ ھم جس مقام پر پہنچ چکے ہیں (عوامل کی بحث کو تھوڑی دیر کے لیےایک طرف رکھ کر) وہ ہماری اذیت ناک اور مکمل اجتماعی تباھی سے زیادہ دور نہیں، چنانچہ ھمارے سیکولر، علم دوست اور فکر مند دوستوں کو \”پرائی وکٹ پر نہ کھیلنے\” کے اصرار کو ترک کرنا ھو گا اور اپنے اہداف پر سمجھوتہ کیے بغیر اپنے بیانیہ کے لیے نئے اور شناسا دلائل لانے ہوں گے۔ مذہب کی ایسی تشریح جو مسلمہ جمہوری اصولوں سے مطابقت رکھتی ھو کو اپنا کر اس سے کچھ مناسبت پیدا کرنی ہو گی۔ ایک سماجی مفکر کا کام اپنے سماج کی عملی حقیقت سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔ مذہب و مذہبی استدلال کو زیادہ اہمیت ملنا ہمارے سماج کی حقیقتیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
11 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments