پرویز مشرف کے حقیقی اور فلرٹ وزیر اعظم


جنرل پرویز مشرف بڑے دیالو ڈکٹیٹر تھے۔ اپنے عہد میں انھوں نے کئی لوگوں کووزارت عظمیٰ کا سبز باغ دکھایا۔ ہم صرف ان آفرز کا ذکر کریں گے جو ہماری معلومات کی حد تک ریکارڈ پر آچکی ہیں۔ نامور صحافی حامد میر نے گزشتہ ماہ اپنے کالم میں لکھا کہ 12اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اسمبلیاں برخاست نہیں کیں اور شہباز شریف کو بڑے بھیا کی جگہ لینے کا دانہ ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ کور کمانڈروں کی بھی یہی رائے ہے۔ شہباز شریف نے بھائی کے خلاف استعمال ہونے سے انکار کیا تو اسمبلیوں کو فارغ کیا گیا۔پرویز مشرف نے شہباز شریف پر ڈورے ڈالنے کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رکھا۔ 2002 کے الیکشن سے پہلے تمام مسلم لیگوں کو اکٹھا کرنے کے جذبے سے سرشار بزرگ صحافی مجید نظامی ،ڈکٹیٹر کے پیام بر بن کر نواز شریف کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ وہ سیاست سے تائب ہوکر چھوٹے بھائی کو آگے آنے دیں۔ یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔

مجید نظامی نے ہمیشہ خود کو آمریت دشمن کے روپ میں ظاہر کیا لیکن حال ان کا یہ تھا کہ فوجی حکمران کی چھتر چھاؤں میں تمام مسلم لیگوں کو اکٹھا کی تمنا دل میں تھی۔ ان کی جمہوریت پسندی کا کچا چٹھا موصوف کے بھتیجے اور ممتاز صحافی عارف نظامی نے مظفر محمد علی سے انٹرویو میں کھولا ہے جس سے معلوم ہوا کہ قبلہ مجید نظامی نے نواز شریف کو سترھویں آئینی ترمیم کو مان لینے کا مشورہ بھی دیا۔ اس ترمیم نے جمہوریت کو جو چرکے لگائے وہ محتاج بیان نہیں۔ باخبر صحافی یہ بھی جانتے ہیں کہ 1979 میں فوجی آمر کو جن تین صحافیوں نے انتخابات ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا ان میں مجید نظامی مرحوم کا اسم گرامی بھی شامل تھا۔

شہباز شریف کے بعد جس سیاست دان کو وزیر اعظم بنانے میں پرویز مشرف نے دلچسپی ظاہر کی وہ عمران خان تھے۔ اس کے راوی کپتان خود ہیں جو یہ بات کئی دفعہ دہرا چکے ہیں کہ مشرف انھیں وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں یہ دعویٰ دہرایا تو اس پر ان کے ساتھ تشریف فرما، شیخ رشید ان کی بات یہ کہہ کر رد کرتے ہیں کہ بھلا ایک سیٹ والے کو وزارت عظمیٰ کیسے آفر کی جا سکتی ہے؟ اس پر عمران خان تصدیق کے لیے کسی انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے مشرف کے انٹرویو کا حوالہ دیے کر نہلے پہ دہلا مارتے ہیں۔

عمران خان کے بعد نام آتا ہے چودھری نثار علی خان کا۔ معروف صحافی سلیم صافی نے کچھ عرصہ قبل لکھا کہ پرویز مشرف نے چودھری نثار کو ٹیلی فون پر نواز شریف سے بے وفائی پر وزیر اعظم بنانے کی بات کی تھی۔ یہ بھی بتایا کہ چودھری نثار کو مسلم لیگ ن چھوڑنے پر آمادہ کرنے کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود نے بھی زور لگایا۔رؤف کلاسرا نے بھی اپنی کتاب میں چودھری نثار کو وزیر اعظم بننے کی آفر ملنے کے بارے لکھاہے۔ 2002 میں الیکشن کے بعد امین فہیم کو بینظیر بھٹو سے دغا کرکے وزیر اعظم بننے کا لالچ دیا گیا لیکن یہ چال بھی چلی نہیں۔ 1988 میں آرمی چیف اسلم بیگ اور صدر غلام اسحاق خان نے امین فہیم سے کہا کہ وہ پارٹی میں فاروڈ بلاک بناکر وزیر اعظم بن جائیں، جس سے انھوں نے انکار کردیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پیپلز پارٹی کو دغا دے کر وقتی طور پر بڑا منصب تو حاصل کرسکتے ہیں لیکن لیکن اس سے سندھ میں ان کی سیاست کو نقصان پہنچے گا اور دائمی بے توقیری حصے میں آئی گی۔ چودھری اعتزاز احسن بھی دعوے دار ہیں کہ انھیں بھی پرویز مشرف وزیر اعظم کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔

جاوید ہاشمی نے ’’ زندہ تاریخ ‘‘ میں لکھا ہے کہ چودھری شجاعت نے انھیں مسلم لیگ ق کی طرف سے وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی تھی لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ اپنا سیاسی مستقبل نواز شریف کے ساتھ وابستہ کرچکے ہیں۔گمان یہ ہے کہ اس کے پیچھے بھی جناب پرویز مشرف ہوں گے کیوں کہ شجاعت حسین میں یہ تاب اور مجال کہاں کہ وہ چھوٹے منہ سے اتنی بڑی بات کہہ سکیں۔ میر ظفر اللہ جمالی کو عہدے سے ہٹانے کے بعد مشرف، ہمایوں اختر کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے لیکن گجرات کے چودھریوں نے انھیں یہ منصب نہ لینے دیا۔ اس کے بعد شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے پر اتفاق ہوا وہ قومی اسمبلی کے رکن نہ تھے اس لیے درمیان میں 45 دن کے لیے چودھری شجاعت اس منصب جلیلہ پرفائز ہوئے۔محب وطن شوکت عزیز سوا تین سال اس ملک کے چیف ایگزیکٹو رہے جہاں عہدہ چھوڑنے کے بعد انھوں نے کبھی آنا گوارا نہیں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).