’پشاور پولیس اہلکار اپنی چوکیوں میں محصور ہو گئے تھے‘


سپرنڈڈنٹ پولیس شوکت علی

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے سدرن ڈویژن کے سپرنٹنڈنٹ پولیس شوکت علی کے لیے کچھ عرصہ پہلے تک اپنے دفتر سے نکل کر قبائلی علاقے کی سرحد پر واقع پولیس چوکیوں تک جانا حقیقتاً جان کی بازی لگانے کے مترادف تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب پشاور شہر ہر طرف سے دہشت گرد حملوں کی زد میں تھا۔ شہر سے متصل قبائلی علاقوں میں پولیس کی عمل داری ختم ہو گئی تھی اور دن میں بھی یہ جگہیں علاقہ ممنوع بن چکی تھیں۔

شوکت علی کا کہنا ہے کہ ان دنوں کو یاد کر کے اب بھی خوف کی کفیت محسوس ہوتی ہے۔ ان کے مطابق وہ ایسے حالات تھے کہ پولیس اہلکار اپنی چوکیوں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ سرحدی مقامات پر واقع چوکیوں پر جب بھی دہشت گرد حملہ کرتے تو اس وقت کمک دینے کے لیے دیگر تھانوں سے کوئی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ راستوں میں حملہ آور گھات لگائے بیٹھے ہوتے تھے اور جو مدد کےلیے آتا ان کو نشانہ بنایا جاتا۔

پولیس افسر کے مطابق ‘ہم نے ان واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام سرحدی چوکیوں پر واضح کردیا تھا کہ حملے کی صورت میں کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں آ سکے گا لہذا پولیس اہلکار بھی یہ بات سمجھ گئے تھے کہ یا تو انھیں شدت پسندوں کو شکست دینی ہے یا پھر مرنا ہے۔‘

خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاورفرنٹ لائن شہر ہونے کے ناطے گذشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محور رہا ہے۔ یہاں بندوبستی علاقوں کی حدود پر قائم چوکیوں میں شاید ہی کوئی ایسی چیک پوسٹ ہو جسے شدت پسنددوں نے بم یا خود کش حملوں میں نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔

ان علاقوں میں پولیس کی ایسی چیک پوسٹیں بھی موجود ہیں جہاں آٹھ سے زیادہ مرتبہ بڑے حملے ہو چکے ہیں۔ ان چیک پوسٹوں میں باڑہ قدیم اور ارباب ٹاپ قابل ذکر ہیں جہاں پولیس اہلکار تقربناً محصور ہوکر رہ گئے تھے۔ یہ دونوں چیک پوسٹیں خیبر ایجنسی اور ایف آر کوہاٹ کی سرحدی پٹی پر واقع ہیں۔

پولیس نے پشاور شہر کی دفاعی لائن کو مستقل طورپر محفوظ بنانے کے لیے حال ہی میں قبائلی علاقے کی سرحد پر 31 نئی بم پروف چوکیاں قائم کی ہیں۔

بی بی سی پشاور کی ایک ٹیم کو گذشتہ روز پولیس کے ہمراہ ان سرحدی چوکیوں تک رسائی دی گئی۔

پشاور شہر تین اطراف سے قبائلی علاقے سے گھرا ہوا ہے جہاں خیبر ایجنسی، آیف آر درہ آدم خیل اور آیف آر پشاور کے مقامات واقع ہیں۔ یہ تمام چوکیاں اسی سرحدی پٹی پر بنائی گئی ہیں۔

تین سے چار بڑے کمروں اور مضبوط تہہ خانوں پر مشتمل ان چوکیوں میں جدید نظام قائم کیا جا رہا ہے۔ تقربناً ایک ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی ان چوکیوں کی بیرونی دیورایں مضبوط میٹریل سے بنائی گئی ہیں جس پر پولیس کے مطابق راکٹ لانچر اور بھاری اسلحہ بھی اثر نہیں کرتا۔ یہ پوسٹیں امریکی امداد سے بنائی گئی ہیں۔

ان چیک پوسٹوں کے قیام کا پہلہ مرحلہ تقربناً مکمل ہو چکا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں ان چیک پوسٹوں میں وڈیو نگرانی کا جدید نظام قائم کیا جائے گا۔

پشاور پولیس کے سربراہ محمد طاہر خان کا کہنا ہے کہ ان قلعہ نما چوکیوں کی تعمیر کا بنیادی مقصد دور افتادہ مقامات پر پولیس کی رسائی کو بہتر بنانا اور پورے علاقے پر نظر رکھنا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ شہر میں حالات کافی حد تک بہتر ہو گئے ہیں کیا ایسے میں ان چوکیوں کی کوئی ضرورت تھی، پولیس سربراہ نے کہا ’پشاور اور خطے کے ارد گرد کے حالات کے تناظر میں ہمارے لیے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ ہم ایک ایسا مضبوط نظام بنائیں جس کے تحت ہم باآسانی اپنا دفاع کرسکیں ۔’

انھوں نے کہا کہ ان چوکیوں کی بیرونی دیواروں کی موٹائی تقربناً 30 انچ پر مشتمل ہے جس پر بم یا بارودی مواد اثر نہیں کرتا۔

ان کے مطابق چیک پوسٹوں کے قیام سے نہ صرف پولیس فورس میں احساس تحفظ بڑھا ہے بلکہ اردگرد رہنے والے افراد بھی اب خود کو نسبتاً زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔

محمد طاہر کے بقول صوبے میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران تقربناً 1500 پولیس اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جس میں تقربناً 500 اہلکار صرف پشاور میں ہلاک ہوئے۔

حالات کی بہتری کے ساتھ پشاور شہر کی پہلی دفاعی لائن اب نہ صرف بحال کی جا چکی ہے بلکہ حکام نے اسے مضبوط بھی اس امید پر بنایا ہے کہ مستقبل میں یہ چوکیاں پولیس کی عمل داری برقرار رکھنے میں بنیادی کردار ادا کریں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp