کیلے کا چھلکا


\"inam-rana-3\"

کہتے ہیں سردار سوہن سنگھ دھاریوال اکثر کیلے کے چھلکے سے پھسل جاتا تھا۔ ایک دن تیار شیار ہو کر گھر سے نکلا تو آگے پڑا تھا کیلے کا چھلکا۔ سوہن سنگھ نے ہاتھ ماتھے پر مارتے ہوے کہا \”ہائے او ربّا ، اج فیر تلکنا پوے گا\”۔ اسکا اردو ترجمہ \”یاخدا، آج پھر پھسلنا ہو گا\” بنتا ہے پر یقین کیجیے سردار سوہن سنگھ اتنا نستعلیق پھسل نہیں سکتا تھا۔

 

ہماری ادبی اور صحافتی تاریخ میں سیاسی اور مذہبی تاریخ کی طرح معرکوں، مناظروں کا بہت رواج رہا ہے۔ مذہبی سیاسی تو خیر چلتے ہی رہتے ہیں کہ کسی طور تو گلشن کا کاروبار چلے۔ مگر جب انائیں نظرئیے سے وابستہ ہو جائیں بلکہ نظرئیے پر حاوی ہو جائیں تو ادب اور صحافت میں بھی معرکے برپا ہوتے ہیں، مناظرے چلتے ہیں اور لفظوں کے گولے پھینکے جاتے ہیں۔ حزیں اور سودا، میر اور سودا کے ادبی معرکوں سے ادب کے طلبا بخوبی واقف ہیں۔ ابھی \”ماضی کچھ دور قریب\” میں اماں بی اور تحریک خلافت والے مولوی محمد علی اور گیسو دراز خواجہ حسن نظامی میں ٹھن گئی۔ اب \”ہمدرد\” اخبار نے ختم خواجگان کے نام سے خواجہ حسن نظامی پر چوٹیں شروع کیں تو نظامی صاحب نے \”غریبوں کا اخبار\” نکال کر مولوی صاحب پر حملے شروع کیے۔ بات اتنی بڑھی کہ \”منادی\” کے مقابلے میں \”سنا دی\” اور اسکے مقابلے میں \”اڑا دی\” کے نام سے اخبار نکال کر اک دوسرے سے ادبی کشتی لڑی گئی۔ آگے آئیے تو محمد دین تاثیر جب کمیونزم سے تائب ہوے تو تائب مرزا ہو گئے۔ اب انکی چراغ حسن حسرت سے نظمی جنگ چلی اور دو قریبی دوست ایک دوسرے کو معاف کیے بغیر جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ اردو میں دبستان پنجاب کا ہمیشہ ان سے زرا ٹاکرا رہا جو خود کو اہل زبان کہتے تھے۔ بات نکلی تو زبان کے اصول و قواعد سے مگر شاھد دہلوی کے \”ساقی \” کے مورچے سے سنگ باری ہوئی اور یہاں سے یاروں نے محاذ سنبھالا تو نام رکھا \”نیازمندان لاھور\”۔ افسوس پردیس میں کتب میسر نہیں وگرنہ آپ کو سناتا کہ نیاز فتح پوری، ساقی دہلوی اور دوسری جانب سے پطرس بخاری، حفیظ جالندھری اور سید امتیاز علی تاج وغیرہ کے قلم نے کیا کیا شاہ پارے تخلیق کیے۔ جلد ہی جذبے تھنڈے پڑ گئے، مناظرہ ختم ہوا اور اب ایسی کتب میں محفوظ ہے جو عام نہیں ملتیں۔ رہی اردو، تو نہ جانے اس سے اسکا کیا بنا یا بگڑا۔ ہاں حفیظ کا ایک لاجواب شعر ضرور تخلیق ہو گیا؛

 

حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے

بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

 

مجبور موٹا ہمارا نسبت روڈ کا ساتھی تھا۔ مجبور اسکا تخلص تھا اور موٹا خطاب۔ اور موٹا اتنا تھا کہ جب کسی نووارد کی آمد پر بیٹھے بیٹھے ہاتھ ملا کر کہتا \”میں مجبور ہوں\” تو سننے والا غلط سمجھتے ہوے کہتا \”نہیں کوئی گل نہی، تسی بیٹھے رہو\”۔ مجبور کی ایک بری عادت تھی کہ اگر محفل میں کوئی بھی کھانے کی چیز آتی تو وہ فورا کوئی نظریاتی سی بحث اٹھا دیتا۔ اب محفل جب ملک و قوم کے وسیع مفاد میں ایک لمبی بحث، ایشیا سرخ ہے سبز ہے کہ نعروں اور کچھ ذاتی حملوں کے بعد فارغ ہوتی تو مجبور موٹا کھانا ختم کر کے گولڈ لیف کا لمبا کش لے رہا ہوتا۔ سوچیئے کہ سردیوں کی رات میں آپکے سامنے نسبت روڈ کا ہریسہ پڑا ہو اور آپ اس بحث میں پڑے ہوں کہ پاکستان کے ساتھ اسلامی لگنا چاہیے کہ نہیں۔ الحذر الحذر؛ یقینا ہم اسی قابل تھے کہ مجبور موٹا ہریسہ اکیلا ہی کھائے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ وہ دور کتنے اچھے تھے جب ہم ہر سوال پر بے خوف سرعام چائنہ ہوٹل پہ بیٹھے بحث کر سکتے تھے۔ کون سا موضوع ہے جس پر ہم نے ڈٹ کر بحث نہیں کی، مگر کبھی ڈر نہیں لگا۔ زیادہ ہوا تو جس کو بحث بری لگی وہ اٹھ کر زرا پرلے بنچ پر بیٹھ گیا۔ اور کہاں یہ عالم ہے کہ فیس بک پر لکھتے بھی ڈر لگتا ہے اور سوچتا ہوں پاکستان جاؤں تو کسی کو بتائے بغیر ہی جاؤں۔ دس سال ان مباحثوں، مناظروں کے بعد آج سوچتا ہوں کہ سوائے اپنی انا کو تسکین دینے کے میں نے کیا پایا۔

 

آجکل پھر مباحثوں کا موسم ہے۔ خاکہ بنایا اور لکیریں کھینچیں تھیں بھائی عدنان کاکڑ اور محترم عامر خاکوانی نے، رنگ بھرنے کو اور دوست بھی اترے اور ماسٹر سٹروک کے لیے برش استاذی وجاہت مسعود کے حصے آیا۔ یہ سب میرے اساتذہ ہیں، محترم ہیں اور ہم سب ان کو بہت شوق سے پڑھتے اور ان سے سیکھتے ہیں۔ اب ہم پڑھتے ہیں کہ گیارہ اگست کی تقریر کا آخر مقصد کیا تھا اور نیت کیا تھی۔ قراداد مقاصد نے ملک کو کیا نقصان یا فائدہ پہنچایا۔ صاحبو، یہ قائد کی گیارہ اگست کی تقریر بھی پاکستانی تاریخ کی جنگ صفین ہی ہے؛ ہمیں ہمیشہ کیلیے تقسیم کر گئی اور مباحثوں میں الجھا گئی۔ ہم یہ تحقیق پڑھتے ہیں کہ مولوی عثمانی صاحب کی شخصیت کیا تھی، نیت کیا تھی۔ پاکستان اسلامی ہونا چاہیے یا غیر اسلامی۔ بیانیوں کی یہ جنگ میں روز پڑھتا ہوں اور تلاش کرتا ہوں کہ مجبور موٹا کہاں ہے۔ یقینا وہ کہیں بیٹھا ہمارا ہریسہ کھا رہا ہے۔ صاحبو، محمد علی جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے، برا نہ مانیے یہ اب غیر ضروری بحث ہے، دیکھنا تو یہ ہے کہ کیسا پاکستان اس محمد علی کے لیے بہتر ہو گا جو آج ستر برس بعد بھی پوری روٹی نہیں کھا پاتا۔ عثمانی مرحوم کی نیت کیا تھی سے زیادہ اہم ہے کہ آج مستقبل کو بدلنے کیلیے ہماری اپنی نیت کیا ہے۔ ستر برس بعد بھی مال پٹوار کا جبر کسان کو بھوکا مار رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے پاکستان میں بھی دلہن پہلی ہی رات ایک جاھلانہ تصور کی وجہ سے قتل ہو جاتی ہے۔ تیس برس سے اقتدار میں رہنے والے ایک ایسا ہسپتال بھی نہ بنا پائے جہاں وہ خود اپنا علاج کرا سکیں۔ یقین کیجیے کہ ان مسائل کے شکار شخص کی بلا سے گیارہ اگست کی تقریر کی تشریح کیا ہے؛ اسے تو پیٹ بھر کر روٹی چاہیے، اپنی بوڑھی ہوتی بیٹی کا جہیز چاہیے، اپنی بیوی کیلیے دوا اور بچے کے لیے روزگار چاہیے۔ آپ یہ سب اسے خلافت کے نظام میں دیجیے وہ لمبی داڑھی رکھ کر الحمدللّٰہ کہے گا۔ آپ یہی سب اسے لبرل پاکستان بنا کر دیجیے، وہ ایشیا سرخ ہے کہ نعرے لگائے گا۔ آپ کہ سکتے ہیں کہ یہی بحثیں روشنی بکھیریں گی اور شعور بیدار ہو گا۔ لوگ اسلام ازم یا لبرلزم کی طرف بڑھیں گے۔ شاید آپ درست ہوں مگر زرا پتہ کیجیے کیا عوام کی اکثریت کے پاس یہ پڑھنے کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے؟ باتیں تو ہم ستر سالوں سے کر رہے ہیں، آئیے مکالمے کو مضاربے میں بدلیں اور کوئی عملی قدم اٹھائیں۔

 

ورنہ روز یہ مکالمہ دیکھ کر انعام رانا سوچتا ہے؛ \”ہائے او ربّا، اج فیر پھسلنا پوے گا\”

 

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
14 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments