نئے صوبے یا با اختیار مقامی حکومتیں؟


چند روز قبل جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے آٹھ ممبران اسمبلی نے مسلم لیگ نواز سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے ایک نئے محاذ کی تشکیل کا اعلان کیا۔ پنجاب کے جنوبی علاقوں پر مشتمل نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ ہرگز نیا نہیں ہے، انیس سو ستر کے انتخابات میں جب پاکستان پیپلز پارٹی نے پورے پنجاب سے نشستیں جیتی تھیں تب بھی بہاولپور کے علاقے میں چلنے والی بہاولپور صوبہ کی تحریک کے ہاتھوں اسے کئی نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سے وقتاََ فوقتاََکسی نہ کسی صورت میں یہ تحریک چلتی رہی ہے۔پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں اس سلسلے میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی جب سینیٹ کی جانب سے نئے صوبے بنانے کا بل پاس کر کے قومی اسمبلی کو بھجوایاگیا۔ لیکن اس کے بعد کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے اور اس پارلیمنٹ کی مدت ختم ہو نے کے بعد وہ بل بھی اپنی حیثیت کھو بیٹھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب کے جنوبی حصوں نے ترقی کی منازل اس تیزی سے طے نہیں کیں ،جیسی ترقی سینٹرل پنجاب میں ہوئی۔ جنوبی پنجاب کے رہنے والے نہ صرف صحت ،تعلیم اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے باقی پنجاب سے پیچھے رہے بلکہ ان علاقوں میں غربت اور پسماندگی کی شرح بھی پنجاب کے دیگر علاقوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ ان تمام تر اسباب کے باعث جنوبی پنجاب کے عوام بہت عرصے سے اس بات کے متمنی رہے ہیں کہ انہیں الگ صوبہ کا درجہ دے دیا جائے ۔ ان علاقوں میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ لاہور میں بیٹھے سرکاری بابو اور سیاستدان جنوبی پنجاب کی حالت زار کے بارے میں جانتے بوجھتے بھی کچھ نہیں کرتے ۔ جنوبی پنجاب کے باسیوں کو ایک شکایت یہ بھی ہے کہ ان کے حصے کے فنڈز بھی سینٹرل پنجاب ، خصوصاََ لاہور کے منصوبوں پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔اگرچہ اس سلسلے میں صوبائی حکومت ہمیشہ سے یہی موقف اختیار کرتی آئی ہے کہ جنوبی پنجاب کو اس کی آبادی کے تناسب سے فنڈز کا اجرا کیا جاتا ہے لیکن مقامی سیاسی قیادت اس موقف سے متفق نظر نہیں آتی۔

جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی قیادت نے بہت کھل کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ان کی جدوجہد لسانی بنیاد پر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی طرح سرائیکی صوبے کا مطالبہ کرنے کی بجائے انتظامی بنیادوں پر ایک نئے صوبے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیامسئلہ صرف فنڈز کی تقسیم میں ہونے والی نا انصافی کا ہی ہے یا اس کے علاوہ دیگر عوامل ہیں جو اس نئے اتحاد کے پیچھے کار فرما ہیں۔ اس محاذ میں شامل سیاستدانوں میں سے بیشتر کئی دہائیوں سے پاکستانی سیاست کا حصہ ہیں لیکن ایک نئے صوبے کے حوالے سے کبھی ان کی جانب سے کوئی خاص آواز بلند نہیں ہوئی۔اب الیکشن سے کچھ عرصہ قبل ایک ایسے محاذ کے قیام سے کیا اس مطالبے کی ٹائمنگ کے بارے میں سوالات نہیں اٹھیں گے؟
میں ذاتی طور پر ڈی سینٹرلائزڈ حکومت کا حامی ہوں۔ اسی لئے ہمیشہ سے بلدیاتی اداروں کے کردار کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہوں۔دنیا بھر میں جمہوریت کو عوامی سطح پر لے جانے کے لئے بلدیاتی ادارے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مقامی مسائل کے حل کے لئے فیصلہ سازی بھی مقامی سطح پر ہی کی جانی چاہئے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے بھی اپنے آئین کی تہترویں اور چوہترویں ترامیم کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو انتظامی اور مالی خودمختاری دے دی لیکن ہم اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے ۔ہمارے ملک میں تو بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے بھی سپریم کورٹ کو ہی میدان میں آنا پڑا۔ مگر سپریم کورٹ کے دبائو کے بعد بھی صوبوں نے اپنے اپنے بلدیاتی نظام کے لئے جو قانون سازی کی اس میں نہ تو ان اداروں کو کوئی مالیاتی خودمختاری دی گئی اور نہ ہی انتظامی طاقت۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بلدیاتی اداروں کو آئین پاکستان کے تابع تحفظ دے کر ان کے اختیارات کو واضح کیا جاتا۔ صوبوں پر لازم کیا جاتا کہ وہ این ایف سی کی طرز پر صوبائی مالیاتی ایوارڈ کا اعلان کریںجس کے بعدہر ضلع کو اس کے حصے کے فنڈز براہ راست ٹرانسفر کر دیئے جاتے۔ پھر ضلع کی سطح پر ہی فیصلہ کیا جاتا کہ کن ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنا ہے لیکن چونکہ ہمارے سیاستدان تمام تر اقتدار اپنے پاس رکھنے کے خواہشمند ہیں اس لئے بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے سے گریزاںہیں۔
پنجاب جیسے بڑے صوبے میں ترقیاتی کاموں کے بارے میںمرکزی فیصلہ سازی سے یقیناً جنوبی پنجاب کے باسیوں کے دل میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ شاید ان کے حصے کے پیسے بھی باقی پنجاب میں خرچ کئے جا رہے ہیں۔
اس مسئلے کا واحد حل میرے نزدیک طاقتور بلدیاتی ادارے ہی ہیں ۔ ویسے بھی پاکستان کے آئین میں نئے صوبے بنانے کے جس طریقہ کار کو وضع کیا گیا ہے موجودہ حالات میں اس کے تحت کوئی بھی نیا صوبہ بنانا تقریباًنا ممکن ہے۔ آئین کے آرٹیکل دو سو انتالیس کے مطابق کسی بھی صوبے کی جغرافیائی حدود میں تبدیلی صرف اس صوبے کی صوبائی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے پاس کردہ بل کے تحت ہی ممکن ہے۔ اب موجودہ حالات میں اگر جنوبی پنجاب محاذ کے ٹکٹ ہولڈر جنوبی پنجاب کی تمام تر صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی جیت لیں تب بھی وہ ایک نئے صوبے کے حق میں بل پاس کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ایسے میں ایک نئے صوبے کا نعرہ صرف سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی ایک کوشش نظر آتا ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

افتخار احمد

بشکریہ روز نامہ جنگ

iftikhar-ahmad has 17 posts and counting.See all posts by iftikhar-ahmad