منظور پشتین ، غداری اور ماں جیسی ریاست


بہت سے شکوے منظور پشتین سے بھی ہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے تصور کیجیے کہ جب کسی شہید فوجی جوان کی ماں یا اس کی بیوہ نے یہ نعرہ سنا ہو گا کہ ’ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘ تو اس کے دل پر کیا گزری ہو گی؟اس کا بیٹا تو وطن کی خاطر دہشت گردوں کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہوا تھا۔آپ کا دکھ بھی جائز ہے کہ آپ کے بھائی، آپ کے دوست، آپ کے دلدار ساتھی شہید ہوئے۔ ان ماﺅں، بہنوں، بیٹوں اور بیٹیوں کا دکھ بھی دیکھ لیجیے۔ان کے بیٹے، ان کے بھائی، ان کے والد شہید ہوئے ہیں۔ کیا ان کو دکھ نہیں ہوتا؟ کیاا ن کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا؟ کیا ان کو تکلیف نہیں ہوتی؟ کیا وہ اپنے قاتلوں کے ساتھ شامل تھے؟

 ابھی کل ہی آپ نے کہا کہ اس جنگ میں فوج کے چھ یا آٹھ ہزار جوان اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔ آپ کی ہی بتائی گئی تعداد مان لیتے ہیں۔یہ چھ یا آٹھ ہزار جوان کون تھے؟ کیا یہ ہمارے ہی بھائی نہیں تھے؟ کیا ان کو ہماری ماﺅں نے جنم نہیں دیا تھا؟ کیا ان کے گھروں میں بچے نہیں ہیں؟ کیا انہوں نے وطن کی خاطر قربانی نہیں دی؟ کیا ان کی مائیں نہیں ہیں؟ جب آپ جلسے میں کہتے ہیں کہ ’ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘ تو تصور کریں ان ماﺅں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جن کے شہید بیٹے گھر لائے گئے؟ کیاان کو ایسے ہی کرب سے نہیں گزرنا پڑتا ہو گا جس کرب سے آپ گزرتے ہیں؟

 آپ کھل کر اپنے جلسوں میں عسکری اداروں پر تنقید کرتے ہیں۔ کیجیے، شوق سے کیجیے ۔ آپ اس ملک کے ایک آزاد شہری ہیں، اگرآپ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں کوئی آپ کے ساتھ جبر کا رویہ رکھتا ہے تو آپ کا حق ہے تنقید کرنا۔ آپ کا حق ہے سوال اٹھانا،مگر ایک سوال خود سے بھی پوچھ لیا کریں۔آپ کے علاقے کے جن گھروں سے جنازے نکلے ہیں، جو لوگ اپاہج ہوئے ، جو غائب ہیں،جب آپ ان کے لئے آواز اٹھاتے ہیں اور بدلے میں آپ کو این ڈی ایس اور را کا ایجنٹ کہا جاتا ہے، جب آپ کو غدار کہا جاتا ہے تو آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟ یقینا آپ کو شدید کرب ہوتا ہو گا اور آپ دکھ میں مبتلا ہوتے ہوں گے۔ کیا ایسا ہی دکھ، ایسا ہی کرب کیا ان جوانوں کو نہیں ہوتا جن کے دلدار ساتھی مورچے میں دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے؟ کیا آپ کا اور ان کا دکھ سانجھا نہیں ہے؟

 گزارش یہ ہے کہ یہ نعرہ بازی کا کھیل نہیں ہے۔ آپ نعرہ بازی کا میچ کھیلنے نہیں نکلے ہیں۔آپ کی تنظیم ایک سیاسی تنظیم نہیں بلکہ سماجی تحریک ہے۔ آپ کے کارکنان کی کوئی سیاسی تربیت نہیں۔ ان کو قطعی علم نہیں کہ سیاسی معاملات کیسے حل ہوتے ہیں۔آپ کے مجمع میں ایسے جذباتی نوجوان شامل ہیں جن کو یہ علم نہیں کہ کرنل کے بعد فوج میں کونسا عہدہ ہے یا جیکب آباد بلوچستان میں پڑتا ہے یا سندھ میں۔ جب آپ جذباتی نعرے لگائیں گے تو اس کے بہت سے نقصانات ہوں گے۔ کل آپ کے مجمع میں چندجذباتی نوجوان کہیں گے کہ ہم لڑائی لڑنا چاہتے ہیں۔ ترسوں ایک گروہ الگ کھڑا ہو جائے گا کہ مذاکرات نہیں کریں گے۔چند جاہل پہلے ہی آپ کے جلسے میں لسانی نفرت کا اظہار کر چکے ہیں۔ان جاہلوں نے انسانوں کو ہمیشہ پشتون، پنجابی، سندھی یا بلوچ کی نظر سے ہی دیکھا ہے۔دوسرا نقصان یہ ہو گا کہ آپ جن اداروں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں یا جن اداروں سے مطالبات رکھتے ہیں ان میں آپ، اپنے لئے ایک بے معنی خلیج کو مزید بڑھاوا دیں گے جس کے اچھے ثمرات نہیں نکلیں گے۔ دنیا کی ہر تحریک پر نظر ڈالیں، مسائل کا حل مذاکرات کی ٹیبل ہی رہی ہے۔ تیسرا نقصان یہ ہو گا کہ جو لوگ آپ کے خلاف اس وقت پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں ، وہ آپ کے چند نوجوانوں کے ریاست مخالف نعرے لگانے سے یہ پروپیگنڈا مزید تیز کریں گے کہ در اصل آپ ملک توڑنے کی سازش میں مصروف ہیں۔

 آپ احباب کویہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس ملک کی ہر سیاسی جماعت، اس ملک کا ہر ادارہ، اس ملک کا ہر شہری ہمارا اپنا ہے۔ اس ملک کے کسی ادارے یا سیاسی جماعت یا شہری سے بذات کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ اس ملک کے کسی شہری کو دوسرے شہری پر رنگ، نسل، زبان، یا عقیدے کی بنیاد امتیاز حاصل نہیں ہے۔کوئی بھی شہری دوسرے شہری کو کم یا زیادہ حب الوطن قرار دینے کا حق نہیں رکھتا۔آپ احتجاج کیجیے۔ اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں۔ اپنے دردوں کا حساب مانگیں مگر احترام کے ساتھ، آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔

 اک عرض تمنا منصب داروں سے بھی ہے۔اگر منظور پشتین کسی مفروضہ این ڈی ایس، را یا کسی اور ایجنسی کے پے رول پر ہے جیسا کہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، تو ازراہ کرم کیس داخل کیجیے، ثبوت پیش کیجیے، سزا دلوا لیجیے۔ لیکن اگر منظور ایسے ہی غدار ہے جیسے عبدالولی خان غدار تھا، گل خان نصیر تھا یا حبیب جالب تھا۔ تو ازراہ کرم غداری کے اس مقدمے پر پچاس سال بیت چکے ہیں۔ اس کے مندرجات اب بہت پرانے ہیں اور اس کی عبارت اب ہر شہری کو ازبر ہے۔ ریاست ماں ہے۔ ماں بچوں کی چیخ و پکار پر تڑپتی ہے سوتیلوں کا سا سلوک نہیں کرتی۔ منظور پشتین اور اس کے ساتھی ہمارے بھائی ہیں، یہ ہمارے بچے ہیں۔ ان کے دکھ ہمارے ہیں۔ اس ملک میں نیک محمد سے لے کر فضل اللہ تک ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والوں کے ساتھ مذاکرات کئے گئے۔ یہ تو چند نوجوان ہیں جن کے ہاتھوں میں بندوق نہیں پوسٹر ہیں۔ ماں جیسی ریاست کے کلیجے میں اتنا حوصلہ تو ہونا چاہیے کہ چند ناپسندیدہ نعروں پر بچوں کو پرایا نہ کرے۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah