ہیگل، کانٹ اور اب… چوہدری شجاعت کا فلسفہ “مٹی پاؤ، ڈنگ ٹپاؤ”


چوہدری ظہور الہی کی پنجابی زبان کے بڑے شاعر استاد دامن سے خاصی صحبت رہی۔ روای روڈ پر اپنی فیکٹری کے ساتھ استاد دامن کیلئے دو کمرے تیار کروائے گئے۔ جب کمرے تیار ہوگئے تو استاد دامن نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے تو جواہر لال نہرو نے عیش کی زندگی گزارنے کی پیشکش کی تھی ۔ میرا فیصلہ اب بھی ہی ہے میں اسی کٹیا میں مروں گا جہاں زندگی گزاری ہے۔ ستاون اٹھاون میں پنڈت جواہر لال نہرو لاہور آئے تو انہوں نے اس وقت کے گورنر اختر حسین سے کہا کہ میں استاد دامن سے ملنا چاہتا ہوں۔ گورنر کہنے لگے، “وہ کون ہے۔؟” پنڈت نہرو اس بات پر بہت حیران ہوئے، تاہم گورنر کیساتھ کھڑے اے ڈی سی نے بات گول مول کر دی اور استاد دامن سے ان کی ملاقات کا بندوبست کرنے کا وعدہ کیا۔ وہ استاد دامن کو لینے ان کی کٹیا پہنچے، پنڈت نہرو ملاقات کے خواہشمند ہیں، یہ سن کر استاد دامن بہت خوش ہوئے اور تیار ہونے لگے، اس دوران اے ڈی سی نے غلطی سے کہہ دیا کہ ہمارے گورنر صاحب البتہ آپ کے بارے میں نہیں جانتے تھے، میں نے انہیں آپ کے بارے میں بتایا۔ یہ سنتے ہی استاد دامن نے اپنی تیاری روک دی اور کہا کہ جہاں گورنر اختر حسین جیسا شخص بیٹھا ہو وہاں استاد دامن نہیں جا سکتا۔ پنڈت صاحب سے کہہ دیں میں انہیں کسی اور موقع پر مل لوں گا۔

شالامار باغ میں نہرو جی کے اعزا ز میں اہل لاہور کی جانب سے دی جانے والی پارٹی میں استاد دامن بھی بکل مارے ہاتھوں میں ہار اٹھائے استقبالیہ قطار میں کھڑے ہوگئے، نہرو جیسے ہی قریب آئے استاد دامن نے بھاگ کر ان کے گلے میں ہار ڈالا اور واپس دوڑ لگا دی۔ تاکہ پولیس والوں کی پہنچ سے دور رہ سکیں۔ بہر حال ! ہمارے یہ گورنر اختر حسین جو ستاون سے ساٹھ تک گورنری فرماتے رہے، سول سرونٹ تھے، مشتاق گورمانی کی جگہ گورنر لگے، بعد ازاں سیکرٹری دفاع رہے، جامعہ پنجاب نے انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے بھی نوازا ۔ اور تو اور موصوف انجمن ترقی اردو کے ایک طویل عرصہ صدر بھی رہے۔ لیکن یہ صاحب استاد دامن کے نام سے واقف نہ تھے۔ تف ہے!

آزادی کے بعد استاد دامن بھارت ایک مشاعرے میں گئے جہاں پنڈت جواہر لال نہرو بھی موجود تھے۔ استاد دامن کی شہر ہ آفاق نظم سن کر وزیر اعظم ہندوستان آبدیدہ ہوگئے۔ اس نظم کا آخری شعر کچھ یوں تھا۔۔

لالی اکھیاں دی پئی دس دی اے

روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں

اسی طرح چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ ان کے والد کا حبیب جالب سے بھی بہت گہر ا تعلق تھا۔ ایک رات بارہ بجے چوہدری ظہور الہی کو فون آیا۔ حبیب جالب مخاطب تھے، کہ انہیں سول لائن تھانے میں بند کر دیا ہے، باہر نکلوائیں۔ ظہور الہی صاحب نے گاڑی نکالی اور تھانے پہنچ گئے، تھانے کے سامنے نوائے وقت کا دفتر تھا، صحافیوں کو خبر ہوگئی۔ اگلے روز خبر با تصویر شائع ہوئی کہ چوہدری صاحب نے حبیب جالب کو تھانے سے رہا کروایا ہے۔ تین چار روز بعد جنرل ضیا سے ملے تو انہوں نے کہا کہ آپ خود تھانے جانے کی بجائے کسی اور کو بھجوا دیتے۔ چوہدری صاحب نے ہنس کر ازراہ مذاق کہا کہ حبیب جالب نے شراب پی تھی یا نہیں پی تھی، لیکن نہ آپ پیتے ہیں نہ میں پیتا ہوں۔ آپ اس طرح کریں کہ ایک آرڈیننس جاری کردیں کہ حبیب جالب اور استاد دامن کے سوا کوئی شراب نہیں پی سکتا۔

شریف خاندان کیساتھ اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے چوہدری صاحب اپنی کتاب میں مسلسل نواز شریف اور شہباز شریف کی عہد شکنی کا گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب نواز شریف پہلی بار وزیر اعلی بنے تو معاملات طے پانے کے دوران شہباز شریف جلدی سے اٹھے اور ضمانت کے طور پر قران مجید اٹھا لے آئے۔ پھر تعلقات بگڑے تو بریگیڈئر قیوم کے گھر ہوئی ملاقات میں شریف برادران نے اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کیا اور یوں صلح ہوگئی، اس موقع پر نواز شریف نے دو بار پرویز الہی کا ماتھا چوما، شہباز شریف نے دس منٹ میں قریب قریب دس بار پرویز الہی کو گلے سے لگایا۔ (شہباز شریف کی طبیعت اور مزاج کو دیکھا جائے تو یہ بات سو فیصد درست معلوم ہوتی ہے۔ ہیں جی؟)

کہتے ہیں کہ جنیوا معاہدے پر دستخط کا معاملہ زیر غور تھا، ایوان صدر میں وزیر اعظم جونیجو، یاسین وٹو، زین نورانی اور جنرل ضیا موجو تھے جو غصے سے کھول رہے تھے، زین نورانی (وزیرمملکت برائے خارجہ) سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے معاہدے پر دستخط کر لئے تو عوام حکومت کی بوٹیاں نوچ لیں گے۔ وہ (جنرل ضیا) اس وقت ایک صوفے کے کنارے پر آگے ہو کر بیٹھے ہوئے تھے اور اتنے غصے میں تھے کہ صوفے پر اپنا توازن قائم نہ رکھ سکے اور نیچے گر گئے لیکن میٹنگ کا ماحول اتنا گھمبیر تھا کہ ان کے ساتھ اس طرح مضحکہ خیز انداز میں گرنے کے باوجود سب کے چہروں پر تناو برقرار رہا۔ پھر لکھتے ہیں کہ ضیاالحق کے بعد ان کی فیملی کو رہائشگاہ کا مسئلہ درپیش تھا، نواز شریف یہ کہہ کر کہ آپ کرائے پر گھر لیں ، معاملہ ٹال دیا۔ بیگم شفیقہ ضیا نے مجھ سے بات کی اور ہم نے خود کرائے پر گھر لے لیا اور اپنا گھر انہیں رہنے کے لئے دے دیا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami