مشال خان اور تصویر کا اک رخ


یہاں رواج ہیں زندہ جلا دیے جائیں
وہ لوگ جن کے گھروں سے دیے نکلتے ہیں

یہ روایت کچھ نئی نہیں بلکہ تاریخ کو پڑھنے والے یقینا ایسے بہت سے واقعات کو اپنی یادداشتوں کا حصہ بنائے بیٹھے ہیں۔ علم و فکر کے علمبردار اپنی منفرد سوچ اور جداگانہ طرزِ عمل کے باعث ہمیشہ سے شدت پسند عناصر اور مفاد پرست ٹولے کی راہ میں حائل رہے اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔ ان حق پرستوں میں نوجوان طلباء کے کردار کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ کسی بھی قوم کا مستقبل بلا شائبہ اس کے پڑھے لکھے عوام پر منحصر ہے اور ان نوجوان طلباء پر جن کی تعلیم انہیں معاشرے کا ایک اہم فرد بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

اگر تعلیمی نظام میں کوئی نقص موجود ہوگا تو اس نظام کے زیرِسایہ دی جانے والی تعلیم طلباء کی ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ اور ہمارے ملکی نظام میں یہ سمجھنا بلکل کٹھن نہیں ہے کہ ہمارا نصابِ تعلیم اور نظامِ ِ تعلیم کن کے ہاتھوں میں پرورش پا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی طالبعلم مکمل طور پر اس نصاب پر انحصار کرے جو اس نظامِ تعلیم کی جانب سے عطا کردہ ہے تو وہ تصویر کا صرف اک رخ ہی دیکھ پائیگا اور وہ ایک رخ انتہائی بھیانک اور خوفناک ہے۔ اور اگر کوئی طالبعلم عالمی سطح پر لکھی جانے والی تاریخ، ادب، شاعری اور سائنسی تحقیقات کا مطالعہ کرے اور اس بنیاد پر اس کی آنکھ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے قابل ہو جائے تو یہ امرمفاد پرست اور شدت پسند ٹولیوں پر لرزہ طاری کرنے کے لئے کافی ہے۔ اب اس معاملے کو مشال خان کے تناظر میں دیکھا جائے تو سمجھنے میں قدرے آسانی ہوگی۔

مشال خان اک ایسے ادارے کا حصہ تھا کہ جہاں صرف تصویر کا اک رخ دکھانے کی اجازت تھی۔ اور وہ ایسی تصویر تھی جو طلباء کے استحصال کو ادارے کی پالیسیوں کا حصہ دکھاتی رہی۔ لیکن مشال خان ان استحصالی طاقتوں کے خلاف اپنے اور دیگر طلباء کے حقوق کے لئے کھڑا رہا اور نہ صرف کھڑا رہا بلکہ انتظامی عوامل میں پائی جانے بے ضابطگیوں پر تنقید بھی کرنے لگا۔ اب یہ تنقید اس قدر پراثر تھی کہ مزید طلباء مشال خان کی آواز کا حصہ بنتے گئے۔

لیکن اس آواز کی شدت کو کم کرنے بلکہ ختم کرنے کے لئے مفاد پرستوں کی جانب سے مشال خان کے گلے میں بلاسفیمی کی اک تختی لٹکا دی گئی اور پھر شدت پسندوں کو یہ کہہ کر اس کے پیچھے لگا دیا گیاکہ اگر انہیں ایسا کوئی بھی شخص نظر آئے جس کے گلے میں وہ تختی دکھائی دے تو تمہارا دین تم سے کچھ مطالبات کرتا ہے اور وہ شدت پسند جو تصویر کے محض اک رخ سے واقف تھے اپنی ہی طالبعلم ساتھی کی موت کا سبب بنے۔

آج مشال خان کی پہلی برسی پر دل بوجھل ہوا جاتا ہے۔ اور ذہن اس بات کو تسلیم کرنے پر رضا مند نہیں ہے کہ اک علم دوست ساتھی اب ہم میں نہیں رہا۔
دکھ اس بات کا ہے وہ مفاد پرست ٹولیاں اور شدت پسند عناصر ابھی تک ہمارے تعلیمی اداروں کا حصہ ہیں۔ ان کو خارج کیے بغیر تصویر کا صرف ایک رخ ہی دیکھا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).