شام ایک بار پھر نشانے پر


اس وقت میں نے خود سے کہا تھا بادشاہ چاہے ہند سندھ کے ہوں چاہے روم ایتھنز کے ہوں۔ اول درجے کے کمینے اور کینہ پرور ہوتے ہیں۔ اللہ کے نیک بندوں سے پھڈے بازیاں کرتے رہتے تھے۔ روم کے شہنشاہ اریطاس نے بھی سینٹ پال کی گرفتاری لئے بندے متعین کیے جو مار دھاڑ کرتے یہاں پہنچے۔ مگر سینٹ پال ایک سرنگ کے راستے نکل جانے میں کامیاب ہوگئے۔

گرجے میں ویرانی ہی ویرانی تھی۔ خوبصورتی کے ساتھ پرانا پن بھی تھا۔ ٹرے میں بچھی ریت پر چند موم بتیاں جلتی تھیں۔

اور کونے میں ایک گہیواں رنگ کا اُدھیڑ عمر مرد بیٹھا اِس سارے منظر کو مزید پراسرار بنا رہاتھا۔ میں قریب گئی۔ اپنا تعارف کروایا۔ شکر کہ اُس کے قدرے عجیب سے چہرے پر مدھم سی نرمی اور ملائمت کے نشان اُبھرے۔ بولا تو مزید شکراً کہا کہ انگریزی جانتا تھا۔ باتیں ہونے لگیں۔ میں تو حیرت زد ہ رہ گئی تھی جب کسی لمبی چوڑی تمہید کے اُس نے کہا تھا۔

”سیریا میں بڑی تباہی آنے والی ہے۔ بائبل میں اس کی پشین گوئی کی گئی ہے۔ قریب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شام شہر نہیں رہے گا۔ بس کھنڈرات کا ڈھیر ہوگا۔ کچھ ایسا ہی حال اسرائیل کا بھی ہوگا۔ ‘‘

تب شام کے پر امن حالات کے تناظر میں یہ بات بڑی عجیب سی محسوس ہوئی تھی۔ میں نے جاننے کی کوشش کی۔ برادر رابرٹ کی باتوں میں کہیں ابہام نہ تھا۔

وہ بڑا واضح تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ بائبل کے عالم مسلسل غوروفکر کی دنیا میں رہتے ہیں۔ قیامت کی نشانیوں کے اظہار میں سے ایک بڑا اظہار یہ ہے۔

دراصل یہ بڑی طاقتیں بڑے لمبے منصوبوں پر کام کرتی ہیں۔ عام بندہ کیا لالچوں میں ڈوبے حکمران بھی سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ شطرنج کا کون سا مہرہ کون سی چال چل رہا ہے۔ 1982کی تباہ کن بغاوت سے حافظ الاسد کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ سی آئی اے کس طرح اُن کے لوگوں میں گُھسی کام کررہی ہے۔ دراصل آمرانہ اقتدار کا مزہ اس نشہ آور مشروب کی طرح ہے جسے حالات کی تیز ترین ترشی بھی اُسے تھوڑا سا جھنجھوڑتی ضرور ہے مگر ہوشیار نہیں کرتی۔

میرے تصور کی آنکھ نے اُن گول مٹول سرخ وسفید بچوں کو دیکھا ہے۔ حسین چہروں والی طرحدار دوشیزائیں مجھے یا د آئی ہیں۔ وجیہہ مرد میرے خیالوں میں دوڑے چلے آتے ہیں۔

شام کی خانہ جنگی میں شام کے سراقب قصبے کے رہنے والے شہریوں نے کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کا جس طرح سامنا کیا وہ انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ معصوم بچے اور عورتیں یوں لگتا تھا جیسے شادی کی کسی پر مسرت سی تقریب کے بعد تھک کر سوئے ہوں۔ بے ترتیب سے، ایک دوسر ے میں اُلجھے ہوئے، زندگی کی دوڑیوں سے کٹے ہوئے۔

اللہ تیس ہزار آبادی والے قصبے پر مائع کلورین کے کنستر گرائے گئے۔ یہ ہیومن رائٹس کی قراردایں، یہ باراک اوباما کے بیان۔ روس اور امریکہ کے مابین سمجھوتے۔ جہاں مفادات کا ٹکراؤ نہ ہو وہاں ایسے ہی سمجھوتے ہیں۔ کہاں کی انسانیت؟ کہاں کے اصول اورضابطے؟ بس بشار کو تھوڑی سی ڈانٹ ڈپٹ کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں ہونی چاہیے۔ یاد رکھو کیمیائی ہتھیار وہ سرخ لکیر ہے جس کا استعمال عالمی برادری برداشت نہیں کرے گی۔

اوباما کہتا ہے۔
واہ کیا کہنے اِس عالمی برادری کے۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
مجھے حلب کی ڈاکٹر ہدا کی بھیجی گئی ایک میل یاد آرہی ہے۔

آپاحلب میں سنی لوگوں کی اکثریت تھی۔ جو بہرحال اسد کے علوی مسلک کے تعلق کو اتنا پسند تو نہ کرتے تھے مگر کاروباری لوگ ہمیشہ اپنے کاروبار کا مفاد دیکھتے ہیں۔ ایران اور حزب اللہ لبنان کی علاقے میں بڑھتی دلچسپی نے لوگو ں میں بے کلی اور اضطراب پیدا کرنا شروع کر دیا تھا۔ ابتدائی جھڑپوں میں اقلیتوں نے بھی سنیوں کا ساتھ دیا۔ ترکی پہلے ہی مداخلت کے بہانے تلاش کرتا رہتا تھا۔ امریکہ کی در پردہ سیاست بھی اپنا کھیل کھیل رہی تھی۔

یہاں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یورپی ملکوں کی سیاست کو تو ایک جانب رکھیں۔ اُن کی ہمدردیاں اور خیر خواہی ہمارے ساتھ بھلا کیسے ہو سکتی ہے؟ اسرائیل ہوا۔ امریکہ اور روس ہوئے۔ ہمارا تو سب تخم مارنے کے درپے ہیں۔ مگر یہ جو ڈھیروں ڈھیر اسلا م کے دعوے دار ملک ہیں اور وہ جو ہمارے ہمسائے ہمارے ماں جائے ہیں اُ ن کا کیا رنڈی رونا روؤں؟ ترکی کے لئے کیاکہوں؟ عالم اسلام کی سربراہی کا تاج سر پر سجانے کا خواہش مند۔ دیکھو تو ذرا کن کے ساتھ کھڑا ہے؟

اور اِس مرکز رشد و ہدایت کے دعوے دار ملک کو بھی دیکھو۔ وہ اپنی بادشاہت بچانے کے لئے ان کے چرنوں میں یرغمال ہوا پڑا ہے۔ تلوے چاٹتا ہے۔ ہے کوئی جو کہے شام کو تباہ ہونے سے بچاؤ۔

ڈاکٹر ہدا کی میل کیسی دل شکن سی تھی۔ پڑھتی جا رہی تھی۔ آہیں بھرتی جا رہی تھی۔ ہماری تباہی میں غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ کوئی پوچھے کہ اگر شام سے مسلکی اختلاف ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں کیونکہ انہیں ایران قبول نہیں؟
اور اب کیا ہونے والا ہے؟ روس کے بحری بیڑے بھی روانہ ہو گئے ہیں۔ روس کی محبت بھی ابلی پڑرہی ہے اور مغربی طاقتوں کی بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2