معیاری پاکستانی ڈراموں کا شاندار ماضی


\"mudasarحضرت انسان ہمیشہ سے ایسے ذرائع کی تلاش میں رہا جن سے تفریح کے سامان بہم پہنچا کر اپنے سارے دن کی محنت مشقت کے بعد ہونے والی تھکان دور کر سکے، اس مقصد کے حصول کے لئے شام کے وقت کام کاج سے فارغ ہوکر جگہ جگہ لگنے والی مجالس کا رخ کیا جاتا جہاں حقے کے کش لیتے ہوئے ریڈیو کے گرد حلقے بنا کر خبریں، گانے  اور قصے سننا ستر اور اسی کی دھائی میں حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کا واحد ذریعہ اور چند ایک گنے چنے مشاغل میں سے ایک مشغلہ ہوتا تھا۔ جدت، ترقی اور خوب سے خوب تر کی جستجو کے سبب ہونے والی ایجادات میں سے ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی۔ تفریح کا یہ ذریعہ پاکستان ٹیلی ویژن کے 1964 میں قیام کے بعد بننے والے معیاری ڈراموں اور معلوماتی پروگراموں کی بدولت ہر کس و ناقص میں مقبول سے مقبول تر ہوتا گیا۔ نہ صرف پاکستان بلکہ ہمسائیہ ممالک میں یہ ڈرامے اپنی مقبولیت کی انتہا تک پہنچے جس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہند یاترا کے دوران ٹرین میں ایک سکھ عورت ہماری جاننے والی ایک خاتوں سے یوں گویا ہوئیں، \”میں اپنے بچوں کو نصیحت کیا کرتی ہوں کہ پاکستانی ڈرامے دیکھا کرو۔ تا توانوں مت آوے\” یعنی پاکستانی ڈرامے دیکھا کرو تا کہ تمھیں عقل آئے۔

اس کی یہ بات بلا مبالغہ درست تھی۔ اس دورمیں بننے والے ڈرامے معاشرتی اصلاح اور کسی حد تک رومانوی ٹچ کے ساتھ پر مغض کہانی پر مبنی ہوتی تھے۔ جسے اداکار پیشہ ورانہ صلاحیت اور اپنی جاندار اور نیچرل ایکٹنگ سے حقیقت کا روپ دے کر چار چاند لگا دیتے۔ ان میں تصنع بناوٹ کا عنصر نظر نہ آتا تھا۔ مجھے یاد ہے عمر ماروی کی پی ٹی وی پر لگنے والی وہ لوک داستان جب ٹی وی اتنا عام نہ تھا۔ وہ ڈرامہ دیکھنے کے لئے ہمارا آنگن محلے کی عورتوں اور بچوں سے بھرا ہوتا تھا عمر اور اس کے کارندوں کی جانب سے ماروی پر ڈھائے جانے والے ظلم کو دیکھ کر عورتیں پلؤں سے اپنے آنسو پونچھا کرتیں، عمر کو کوسنے دے دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتیں۔ اس دور کو پی ٹی وی کے سنہری دور سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جب دھوپ کنارے، ہوا کی بیٹی، تنہائیاں، ہوائیں، نجات، سونا چاندی، اندھیرا اجالا، وارث اور مسافر جیسے معاشرتی ناہمواریوں \"drama\"کی عکاسی کرتی کہانیوں پر مبنی ڈرامے چلا کرتے تھے۔

رومانوی کہانیوں میں ایک محبت سو افسانے، ان کہی، پرچھائیاں، بندھن، عمر ماروی، ہیہر رانجھا، شمع، من چلے کا سودا جیسے کلاسک شاہکار تخلیق ہوتے تھے۔ خون گرما دینے والے شہداء کی زندگی پر بننے والے ڈرامے، تھرل ایکشن اور ایڈوینچر کی بات ہو تو الفا براوو چارلی، اندھیرا اجالا، دھواں جیسے ڈراموں کا ذکر نہ کرنا نااصافی ہو گی۔ طنز و مزاح کی بات ہو تو اس میں پاکستانی ادیبوں کے قلم سے جو فنون لطیفہ کے چشمے پھوٹے انہیں آنگن ٹیڑھا، سونا چاندی، الف نون، انکل عرفی، مسٹر جیدی، جیسے ڈراموں نے امر کر دیا۔

اسی کی دھائی کی پیداوار بچے کیسے بھول سکتے ہیں اپنے چاچا مستنصر حسین تارڑ کو جن کا صبح بخیر پروگرام دیکھ کر اسکول جاتے۔ انتہائی بد مزہ ہوگا اس نوجوان کا بچپن جس نے عینک والا جن اور مسٹر جیدی نہیں دیکھا۔ یہ وہ دور تھا جب امرتسر میں ھندو اور سکھ اپنے ٹی وی اینٹینا کے رخ پاکستان کی جانب موڑ دیتے تھے۔ ہندوستان میں پاکستانی ڈراموں کا طوطی بولتا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں ان ڈراموں کو عربی تراجم کے ساتھ نشر کیا جاتا۔ جس نے پی ٹی وی ڈراموں کی مقبولیت شش جہت تک پہنچا دی۔\"drama2\"

پاکستان ٹیلی وژن کے چاروں سینٹرز کراچی، لاہور، پشار اور کوئٹہ سے ثقافتی، علاقائی سیاحتی و لوک داستانوں پر مشتمل پروگرام اور ڈرامے نشر ہوتے۔ ان پروگراموں اور ڈراموں کی خصوصیت مشرقی تہذیب و اخلاقی اقدار کی نمائندگی تھا جو اخلاق سے گری گھٹیا بازاری زبان، ذو معنی جملوں، غیر اخلاقی حرکات و سکنات سے مبرا ہوا کرتے تھے۔ جو اپنے ناظرین کو تفریح مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ناظرین کو با علم با شعور اور معاشرے کا مفید وجود بنانے میں اپنا منفرد کردار ادا کر رہے تھے۔ ٹی وی کا یہی مثبت پہلو تھا جسے پی ٹی وی بطور احسن اپنے اس سنہری دور میں ادا کرتا رہا۔ اس دور میں ڈرامہ نگار ہر طبقہ کو ذہن میں رکھ کر ایسے موضوعات پر لکھتے جو روایت، جمہور کے مذاق، معاشرتی اچھائیوں برائیوں کی ترجمانی و عکاسی کرتے تھے۔ اسی لئے ڈرامہ کو جمہوری فن بھی کہا جاتا ہے۔

لیکن نوے کی دھائی کے آخر میں پرائیویٹ پروڈکشن کے آغاز کے ساتھ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بھر مار ان میں مقابلے کے رجحان اور ریٹنگ کی چکا چوند نے اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی اقدار کے حامل تربیتی اور معیاری پروگرامز کی جگہ ساس بہو کے جھگڑوں، دھوکہ دہی، حسد و کینہ، ایک دوسرے کو مات دینے، لڑائی جھگڑوں کی کہانیوں پر مشتمل ڈراموں نے لے لی۔ حالت یہ ہے کہ اب تقریباََ ہر ڈرامے کا موضوع شادی، پسند ناپسند کی شادی، بے جوڑ شادی، متزاد مذہب و قوم کے لڑکے لڑکیوں کی شادی یا معاشقے، تعداد ازدواج، شادی کسی اور سے معاشقہ کسی اور سے،جیسی بے سر و پا کہانیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ میرے نزدیک تو انہیں کہانی کہنا ہی کہانی اور ڈرامہ نگاری جیسے جمہوری فن کی توہین ہے۔\"drama4\"

ادب کی اس صنف کا دیگر اصناف کے مقابل عوام کے ساتھ ایک کثیر جہتی، فوری اور براہ راست نوعیت کا تعلق ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ اس میں پیش کئے گئے خیالات اور نظریات بہت جلد جمہور کی رائے، نظریہ یا خیال بن جاتے ہیں۔ ڈراموں میں پیش کئے گئے یہ خیالات دیکھنے والوں کے ذہنوں پر ان مٹ نقوش مرتب کرتے ہیں۔ اس لئے سراسر منفی رجہانات کو فروغ دینے والے ان موضوعات سے ہٹ کر معاشرتی برائیوں کے متعلق شعور کو اجاگر کرنے والے باہمی محبت، حب الوطنی، برداشت رواداری، مذہبی و اخلاقی اقدار کے ترجمان و عکاس موضوعات ڈرامہ نگاری کے موضوعات میں شامل کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ایسے موضوع جو تفریح کے ساتھ  عوام میں تربیت اور شعور  اجاگر کریں، اس کے لئے اپنی ترجیہات بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور کیا دیکھنا چاہئے اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments