جاگ پنجابی جاگ


استاذی پروفیسر خالد سعید اور برادرم ڈاکٹر اختر علی سید کی ہدایت پر درویش 7 اور 8 نومبر کو ملتان لٹریری فیسٹیول میں شریک ہوا۔ استاذ الاساتذہ ڈاکٹر انوار احمد کی ہم نشینی سے سرفراز ہوا۔ ڈاکٹر مقبول گیلانی اور عزیزم علی نقوی کی دلدار میزبانی سے لطف اٹھایا۔ کشور ملتان میں رضی الدین رضی، شاکر حسین شاکر، قمر رضا شہزاد اور نوازش علی ندیم بندہ عاجز کے قدیمی مہربان ہیں، چشم گستاخ نے محبت اور علم کے ان نایاب نمونوں کو مدت سے ”چہار چیز است تحفہ ملتان“ کے زمرے میں رکھ چھوڑا ہے۔ الحمدللہ،   ان چاروں سے رسم معانقہ عمل میں آئی۔ عزیزم حارث اظہر نے تو “سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر” کا سا والہانہ رنگ طبیعت پایا ہے۔ 

ملتان لٹریری فیسٹیول میں معروف سرائیکی دانشور عبدالستار تہیم سے بھی ملاقات ہوئی۔ واللہ ایسے شمشیر برہنہ لوگ اب کم ملتے ہیں۔ ایک آدھ رسمی لفظ، پھر سرائیکی وسیب کی حمد و ثنا، کچھ اہل پنجاب کی تنقیص اور پھر سیدھا حملہ کیا۔ تم نے نواز شریف کو سقراط، منصور حلاج اور کارل مارکس کے برابر قرار دیا؟ عرض کی کہ میرے ٹویٹ میں مارکس نہیں تھے، تیسرا نام نیلسن منڈیلا کا تھا۔ اور میں اپنی رائے پر قائم ہوں۔ دلیل کا موقع دیے بغیر فرمایا اور تم نے ایک کالم لکھا، جاگ پنجابی جاگ۔ میں ہڑبڑا گیا اور صاف انکار کر دیا کہ یہ تو میرا طرز استدلال ہی نہیں۔ میں پنجاب سمیت کسی بھی پیدائشی شناخت کے نام پر سیاست کو درست نہیں سمجھتا۔ وہ ڈٹے رہے اور فرمایا، میں تمہیں اس کالم کا تراشہ بھیجوں گا۔ اب جو میں اپنی نشست پر آ کر بیٹھا اور اخوان الشیاطین کے اس نمائندہ خصوصی کے تیقن پر غور کیا تو خیال آیا کہ شاید ایسا کچھ لکھا ہی ہو۔ مجھے کون سا اپنا لکھا یاد رہتا ہے۔ ابھی اگلے روز محترمہ عاشی حسین نے میرے ایک کالم کا حوالہ دیا جو قطعی طور پر میرے حافظے سے اتر چکا تھا۔ فیصلہ کیا کہ لاہور چل کر دیکھتا ہوں۔ عین ممکن ہے کہ طنزیہ عنوان دیا ہو۔ سیاق و سباق دیکھنا ہو گا۔ قبلہ عبدالستار تھہیم کا تو یہ ہے کہ پنجاب کا لفظ پڑھتے یا سنتے ہی ان کی ناف ٹل جاتی ہے۔

عزیزان محترم، لاہور واپس آ کے جو پرانے کاغذ ادھر ادھر کیے تو عبدالستار تہیم کا حافظہ بازی لے گیا۔ واقعی اس پرتقصیر نے 15 اپریل 2018 کو ”جاگ پنجابی جاگ“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جو روز نامہ ”جنگ“ اور ”ہم سب“ پر شائع ہوا۔ انتخابات کی آمد آمد تھی اور درویش بے نشاں نے اہل پنجاب سے التماس کی تھی کہ جمہوریت کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے آگے بڑھیں۔

کل قافلہ نکہت گل ہو گا روانہ
مت چھوڑیو تو ساتھ نسیم سحری کا

تو بھائی عبدالستار تھہیم کے شکریے کے ساتھ یہ کالم دوبارہ سے آپ کی نذر کرتا ہوں۔ اپنے کسی کالم کا عنوان بھول جانا اچھی بات نہیں لیکن اس سے بری بات بھی ممکن ہے  اور وہ یہ کہ لکھنے والا اپنی پرانی تحریر دیکھے اور اس کے مندرجات یا دلائل کو واقعاتی یا اصولی طور پر ناقابل دفاع اور باعث خجالت پائے۔ (و-مسعود)

٭٭٭      ٭٭٭

آپ تو عنوان دیکھ کر ہی خائف ہو گئے۔ آپ کا دھیان نومبر 1988 کے انتخابات کی طرف گیا اور آپ کو یاد آیا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت قرار پائی تھی۔ تین روز بعد صوبائی انتخابات منعقد ہونا تھے۔ اس دوران غیب سے ایک صدا سنائی دی “جاگ پنجابی جاگ”۔ نتیجہ یہ کہ پنجاب کے صوبائی انتخاب میں پانسہ پلٹ گیا۔ آئی جے آئی کو اکثریت ملی اور میاں نواز شریف صوبے کے وزیر اعلی منتخب ہوئے۔ اس پر قومی مفاد کے رکھوالوں نے بغلیں بجائیں۔ مرکز اور پنجاب میں دو مختلف جماعتوں کی حکومتیں قائم ہونے سے بیس ماہ پر محیط ایک مسلسل بحران مرتب ہوا۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو لاہور تشریف لاتی تھیں تو وزیر اعلی نواز شریف ان کا استقبال کرنے ائیر پورٹ نہیں جاتے تھے۔ ملتان میں پیپلز پارٹی کے کسی راہنما پر مقدمہ درج ہوتا تھا تو وہ بھاگ کر اسلام آباد آن بیٹھتا تھا۔ وفاقی حکومت کسی سیکرٹری کو وفاق میں بلانا چاہتی تھی تو صوبائی حکومت صاف انکار کر دیتی تھی۔ اس دوران ایم کیو ایم، اے این پی اور دوسری چھوٹی جماعتوں کے وفاداریاں تبدیل کرنے کی خبریں ایسے نمودار ہوتی تھیں جیسے اداکاروں اور کھلاڑیوں کی شادی کی خبریں اخبار کے صفحے کو رنگ بخشتی ہیں۔ بالاخر 06 اگست 1990 کو غلام اسحاق خان نے آئین کی شق اٹھاون ٹو بی کے تحت وزیر اعظم کو برطرف کر دیا۔ الزامات کی فہرست عین مین وہی جو اہل وطن نے 17 اپریل 1953کو ناظم الدین کے خلاف سنی تھی، نااہلی، بدعنوانی اور سیاسی عدم استحکام۔۔۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عشروں پر پھیلی اس نوٹنکی سے کبھی سیاسی استحکام پیدا ہوا اور نہ بدعنوانی ختم ہوئی۔ نااہلی کا معاملہ تو یہ ہے کہ 1988 میں بندگان خاکی نے اہلیت کا جو پتلا نواز شریف کی صورت میں دریافت کیا تھا آج مورخہ 13 اپریل 2018 کو اسے تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ اب نواز شریف نہ صادق رہے اور نہ امین۔ یہ سب قصے تین لفظوں کے ایک منتر ’جاگ پنجابی جاگ‘ سے شروع ہوئے تھے۔ کبھی وقت ملے تو تیس برس پرانی وہ تحریریں پڑھیے گا جن میں نواز شریف کی نجابت، شرافت، دیانت، اہلیت اور وطن دوستی کے قصے بیان کیے گئے تھے۔ تب بھی صحافت میں یہی گنجفہ کبیر، لغت ہائے حجازی کے قارون، ریبل ود آؤٹ کاز تھے جو تب بھی مغلوب تھے اور آج بھی مغلوب ہیں۔ لاہور کی مال روڈ پر چار کلب روڈ صحافت اور سازش کے گٹھ جوڑ کی عینی گواہ ہے۔ عرض یہ ہے کہ جیسے نواز شریف تیس برس میں اہل سے نااہل ہوئے ہیں، جاگ پنجابی جاگ کا مفہوم بھی بدل گیا ہے۔ آج جو شکستہ قلم اہل پنجاب سے جاگنے کی گزارش کرتا ہے وہ صوبائی عصبیت کا سہارا نہیں لے رہا، صرف یہ گزارش کرتا ہے کہ تاریخ نے پاکستان کے استحکام، سلامتی اور خاک نشینوں کے اچھے مستقبل کی ذمہ داری اہل پنجاب کے کندھوں پر رکھ دی ہے۔ آئیے آپ کو ایک پرانا قصہ سنائیں۔

دریائے ستلج کے مغربی منطقے میں انگریز کی عملداری قائم ہوئی تو مغربی پنجاب کے وسیع علاقوں میں بے آب و گیاہ اور بنجر قطعات اراضی بے کار پڑے تھے، انگریز نے اس خطے میں آب پاشی کے لیے نہری نظام تعمیر کیا اور مشرقی پنجاب نیز مرکزی اضلاع کے کسانوں کو ترغیب دی کہ اگر وہ ان غیر مزروعہ زمینوں کو زیر کاشت لائیں تو انہیں اس اراضی کے مالکانہ حقوق نہایت آسان شرائط پر منتقل کر دئیے جائیں گے۔ ہزاروں گھرانے اپنی آبائی زمین چھوڑ کر لائل پور، راولپنڈی، سرگودھا اور منٹگمری جیسے علاقوں میں منتقل ہوئے۔ جنگلی جھاڑیاں صاف کیں، جڑی بوٹیاں اکھاڑیں اور بے آباد ٹیلوں کو لہلہاتے کھیتوں میں بدل ڈالا۔ جب اس مشقت کا صلہ ملنے کا وقت آیا تو انگریز حکومت نے باری دو آب ایکٹ میں ترمیم کر دی، آبیانہ بڑھا دیا اور زمین کی فروخت اور وراثت کے قانون بدل ڈالے۔ اس پر پنجاب میں اشتعال پھیل گیا۔ ہفت روزہ جھنگ سیال میں ایک نظم شائع ہوئی،

پگڑی سنبھال جٹا، پگڑی سنبھال اوئے،

لٹ لتا مال تیرا، کیتا بے حال اوئے۔

مولانا عبدالمجید سالک روایت کرتے تھے کہ یہ نظم چودھری شہاب الدین نے لکھی تھی۔ کسانوں کی اس تحریک کا نام ہی “پگڑی سنبھال جٹا” رکھ دیا گیا۔ پگڑی سنبھال جٹا تحریک جلد ہی سامراج دشمن تحریک آزادی میں بدل گئی۔ اس کے راہنماؤں میں لالہ لاجپت رائے، سردار رنجیت سنگھ، لالہ پنڈی داس اور شہاب الدین شامل تھے۔ انگریز سرکار نے سیاسی جلسوں میں پگڑی سنبھال جٹا نظم پڑھنے پہ پابندی عائد کر دی۔ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر ایبٹ سن نے چھ مئی 1907 میں وائسرائے ہند لارڈ منٹو کو ایک رپورٹ بھیجی تھی کہ پنجاب میں کھلم کھلا بغاوت کی باتیں ہو رہی ہیں۔ انگریز سرکار کو لیکن یہ اطلاع نہیں تھی کہ چند مہینے بعد ستمبر 1907میں لائل پور کی تحصیل جڑانوالہ میں بھگت سنگھ نام کا ایک دلاور پیدا ہونے والا تھا جسے ہندوستان کی تحریک آزادی میں پنجاب کی لاج رکھنا تھی۔ “پگڑی سنبھال جٹا” سے “جاگ پنجابی جاگ” تک آنے میں اسی برس لگے تھے۔ ٹھیک تیس برس بعد اہل پنجاب کے کندھوں پر عوام کا حق حکمرانی بچانے کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔

پاکستان کے وفاق کی اکائیاں ایک نازک رشتے میں بندھی ہیں، کسی صوبے کی آبادی زیادہ ہے تو کسی کا رقبہ زیادہ ہے۔ کسی صوبے سے دریا نکلتے ہیں تو کسی صوبے کے پاس بندرگاہ کا اثاثہ ہے۔ اس ملک کی تاریخ باہم نفاق، ناانصافی اور بے گانگی سے عبارت ہے۔ پاکستان کے قیام میں پنجاب واحد صوبہ تھا جس کا تاریخی وجود دو ٹکڑے ہوا۔ لاکھوں خاندانوں کو گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنا پڑی۔ پنجاب کے دریا لہو سے سرخ ہوئے۔ یہ اعزاز بھی پنجاب کو حاصل ہے کہ پاکستان کے نام پر پنجاب نے کبھی تعصب سے کام نہیں لیا۔ جمہوریت کی لڑائی ہو، قومی مالیاتی ایوارڈ ہو یا دریاؤں کا پانی، اہل پنجاب نے قربانی دینے سے کبھی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر اس ملک میں جمہوریت کی کتاب جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی ہے، عوام کے حقوق کا محضر نامہ خون آلود ہے تو اس ناانصافی میں پنجاب شریک رہا ہے۔ پاکستان میں اقتدار کا مرکز پنجاب رہا ہے۔ آمرانہ اقتدار کے عشروں میں سیاسی اختیار پنجاب کے ہاتھ میں رہا ہے۔ پاکستان کا قومی بیانیہ پنجاب نے مرتب کیا ہے۔ پنجاب نے ون یونٹ کی مخالفت نہیں کی۔ فروری 1948 سے 2018 تک بلوچستان پر جو ستم توڑے گئے، پنجاب نے اس پر مزاحمت کا حق ادا نہیں کیا۔ سندھ کے سیاسی کارکنوں کو ڈاکو قرار دے کر مارا گیا تو پنجاب خاموش رہا۔ افغان جہاد کی لڑائی میں پختونوں کا لہو بہایا گیا، طالبان رستاخیز میں پختون بے گھر ہوئے۔ پاکستان کی چھوٹی وفاقی اکائیوں کے ساتھ کھلواڑ ہوتی آئی ہے۔ 2018ء کا برس سوال کر رہا ہے کہ کیا پنجاب بڑا بھائی ہونے کی ذمہ داری اٹھائے گا؟

قومی اسمبلی کی 342 نشستوں میں سے 146 عام نشستیں اور عورتوں کی 35 مخصوص نشستیں ملا کر پنجاب کے پاس 181 نشستیں ہیں۔ اس سے کوئی غرض نہیں کہ اہل پنجاب کس سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں۔ اپنے شعور کی روشنی میں کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کی امانت سونپنا اہل پنجاب کا حق ہے۔ گزارش صرف یہ ہے کہ انتخابی مہم کے بادل جمع ہورہے ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں جڑی بوٹیوں نے سر نکال لیا ہے۔ پختون خوا کے حالات بھی دگرگوں ہیں لیکن اصل معرکہ پنجاب میں ہونا ہے۔ یہاں فیصلہ ہو گا کہ عام انتخابات کے بعد سیاسی تنظیم، منشور اور جمہوری ساکھ رکھنے والی کوئی جماعت حکومت قائم کرے گی یا اسلام آباد کی شاہراہ آئین پر تانگوں کی دوڑ منعقد ہو گی۔ ستر سال میں سرکاری دفتروں کے شیور فارمی انڈوں سے جمہوریت کا چوزہ برآمد نہیں ہوا۔ ہم یونینسٹ پارٹی کی پاور پالیٹیکس کے زخم خوردہ ہیں۔ ہم نے ریپبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، جونیجو لیگ، آئی جے آئی، قاف لیگ اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ جیسے میکانکی گھوڑوں کو دوڑ جیتتے دیکھ رکھا ہے لیکن یہ بھی جانتے ہیں کہ شعبدہ بازی سے جیتنے والے گھوڑوں کا کوئی شجرہ نہیں ہوتا۔ اس برس اہل پنجاب کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے صحیح انتخاب کرتے ہیں یا ایک بار پھر پرائے گناہ میں سہولت کار کا طوق پہنتے ہیں۔

اشاعت اول: 15 اپریل 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).