جہیز بمقابلہ لاکھ تنخواہ!


کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی قدرت کی طرف سے انسانی تولید کا ایک بہترین و مکمل نظام وضع کردیا گیا۔ اس کے بعد اس نظام پر مختلف مذاہب، ثقافتوں اور ممالک کا روایتی غلاف چڑھایا جاتا رہا اور آج بھی اکیسویں صدی میں بھی بنیادی نظام وہی ہے مگر لوگوں کے آپسی میل ملاپ کا تہزیب و تمدن مختلف ہے۔

دین اسلام میں انسانی نسل کی بڑھوتری کے لئے اسلامی معاشرےمیں موجود بلا امتیاز بالغ لڑکا لڑکی کے درمیان اسلامی قواعد و ضوابط کے مطابق ایک نکاح لازمی ہوتا ہے جس کے بعد روایتی طور طریقے سے ان کی اذدواجی زندگی رواں دواں ہوجاتی ہے اور ایسے ہی نسل در نسل یہ سلسلہ پہلے دن سے تا قیامت جاری ہے اور رہے گا۔

دنیا بھر کے مذاہب میں اسلام ایک پرامن، آسان اور بہترین مرتب کردہ مکمل مذہب ہے جو انسان کے لئے ہر لحاظ سے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ اسلام میں انسان کے لئے جہاں باقی چیزوں میں آسانی ہے وہاں نکاح کے لئے بھی بالکل آسان سُنت طریقہ بتایا گیا اور پیغمبروں کے ذریعے عمل کر کے بھی دکھایا گیا تاکہ ہر مسلمان والدین بغیر کسی معاشی تنگی یا دکھ کے آسانی سے اپنے بچوں کو وضع کیے گئے نظام کی تسبیح میں پرو کر اپنا فرض ادا کر سکیں۔ بلکہ ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا کہ ”سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچہ سب سے کم ہو“۔

مگر بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ نکاح کے عمل میں سُنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اس نکاح کو مختلف معاشرتی غلافوں میں لپیٹ کر معاشرے کو ایک غلط رواج پر لگا دیا ہے جس سے معاشرے میں موجود اوسط و نچلے طبقے کے لوگ معاشی بدحالی کی وجہ سے اپنے بچوں کی شادیوں کےفرائض کی بروقت ادائیگی میں بے بس و مجبور ہوجاتے ہیں۔

اس صورتحال میں جہاں لڑکے والے خاندان کا شکار لڑکی کے ساتھ جہیز کی مانگ کی صورت میں لڑکی والا خاندان۔ وہیں لڑکی کے خاندان والوں کا شکار لڑکے کے ساتھ بیرون ملک جاب، لاکھ تنخواہ وغیرہ کی مانگ کی صورت میں لڑکے کا خاندان ہوتاچلا آرہا ہے۔

ان معاشی مانگوں کی کشمکش میں لڑکا لڑکی کے بالغ عمری میں شادی کا عرصہ بیس سال سے بڑھ کر تیس سے پینتیس سال تک چلا جاتا ہے جس سےجہاں ان کے والدین کو اولادکے فرائض کی دیر سے ادائیگی کا دکھ ہوتا ہے وہاں لڑکے اور لڑکی کا جسمانی استحصال ہوتا رہتا ہے اور لڑکا لڑکی قدرتی طور پر پیدا شدہ جسمانی خواہشات کے استحصال کے خاتمے کے لئے اپنی مذہبی و اخلاقی اقدار کو ٹھوکر مارکر شادی سے بہت پہلے اپنے تئیں حدیں پار کر چکے ہوتے ہیں۔ جس سے جہاں مذہبی عقائد کو ٹھیس پہنچتی وہیں معاشرتی برائیاں جنم لے کر معاشرے میں غلط رواجوں کو تقویت پہنچاتی ہیں اور پھر معاشرہ احساس کی محرومیوں کی جانب دوڑتا چلا جاتا ہے۔

لڑکا لڑکی کی زندگی کے استحصال کے ذمہ دار دونوں خاندان ہوتے ہیں جو ان کی معاشی خوشحالی کے چکر میں ان کی جسمانی بدحالی کو نظرانداز کردیتے ہیں اور اس کے نتائج شادی کے بعد میاں بیوی کو دیر سے شادی ہونے میں مختلف طبی پیچیدگیوں کے پیدا ہونے کی صورت میں سامنے آتے ہیں جو میاں بیوی کے نکاح کے خوبصورت بندھن کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بعض اوقات تو نوبت طلاق، خودکشی یا قتل تک جاپہنچتی ہے جس سے مزید مسائل و خاندانی رنجشیں پیدا ہوجاتی ہیں۔

جہاں لڑکے والوں کی طرف سے مخصوص جہیز کی مانگ غلط ہے وہاں لڑکی والوں کی طرف سے مخصوص جاب، تنخواہ کی مانگ بھی غلط ہے کیونکہ یہ دونوں مانگیں آج کل شادی کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہیں۔

ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ ہم قدرت کے بنائے اصولوں کو چھوڑ کر اپنے بچوں کے لئے معاشی خوشحالیوں کے چکر میں ان کے لئے کتنی بدحالیوں کا جال بُن رہے ہیں۔
اگر ہم سب جہیز اور جاب والی روایتی سوچ بدلیں گے تو معاشرے کا ہروالدین اپنی بیٹی کے پیدا ہونے پر جہیز کو سوچ کر افسردہ نہیں ہوگا۔ وہیں بیٹے والوں کے لئے بھی اپنوں سے رشتہ داریاں بڑھانے یا مضبوط کرنے کے لئے جاب یا تنخواہ کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔

مسلمان کا نکاح مرتے دم تک کا ہوتا ہے اور نکاح کے دیرپا ہونے کے لئے مخصوص جہیز یا جاب کوئی ضمانت نہیں ہوتی بلکہ یہ رشتے تو احساس، پیار، برداشت اور اخلاق سے مضبوط ہوتے ہیں اور تامرگ قائم رہتے ہیں جبکہ جن رشتوں کی بنیاد ہی شرطوں پر قائم ہو وہ احساس و پیار کے پیدا کرنے کی بجائے نفرتوں کو پیدا کر دیتے ہیں جن سے رشتوں میں برداشت ختم ہوجاتی اور شادی کا بندھن کمزور پڑجاتا ہے۔

اگر آپ مسلمان ہیں تو اللہ پر توکل رکھیں کہ اس نے ہم۔ سب کو پیدا کیا ہے تو وہ ہم سب کو رزق بھی دے گا جیسا کہ قرآن میں آیت ہے (اور اللّہ تعالٰی بہتر رزق دینے والا ہے)۔

سوچ بدلیں۔ حالات بدل جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).