میری کہانی، میرے پاپا کی زبانی


میرے پاپا نے معذوروں کے ساتھ لوگوں کے رویوں کے حوالے سے تقریباً روزانہ ہونے والے ایک چشم دید واقعہ کے بارے میں بتایا کہ اُن کی مارکیٹ میں ایک ذہنی معذور شخص چل پھر کر لوگوں سے مانگ تانگ کر اپنا گزارا کرتا ہے۔ اکثر کوئی نہ کوئی شخص اُس کے اوپر پانی پھینک دیتاہے جس کے جواب میں وہ معذور شخص روتے ہوئے انتہائی غلیظ گالیاں نکالتا ہے، یہ گندی گالیاں سن کر اہل علاقہ بہت محظوظ ہوتے ہیں اور ایسی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے بار بار اُس پر پانی پھینکتے ہیں یعنی اس شخص کی معذوری نارمل لوگوں کی تفریح کا باعث بنتی ہے۔ ایسے موقع پر میرے پاپا لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا نہ کیا کریں تو لوگوں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اگر تھوڑے وقت میں بغیرپیسوں کے ہمیں کچھ تفریح کا سامان ہاتھ آ جاتاہے تو اس سے آپ کو کیا تکلیف ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ اسلامی معاشرے میں موجود ’حسن اخلاق کے حامل‘ ان لوگوں سے ہم کون سی خیر کی توقع کرسکتے ہیں۔

میرا ایک اور مشکل امتحان اپنے آپ کو پورا دن مصروف رکھنا ہوتا ہے۔ جس طرح باقی بچے صبح سویرے خود ہی تیار ہو کر اسکول جاتے ہیں اور واپس آ کر اسکول کا کام یا گھر سے باہر کوئی کھیل کھیلتے ہوئے اپنا وقت بِتاتے ہیں یا کوئی اور مصروفیت (جیسے انٹرنیٹ وغیرہ کا استعمال) میں اپناو قت گزار لیتے ہیں، وہ میرے لئے ممکن نہیں۔ اس معاملے میں مَیں مکمل طور پر ناکارہ یا بے بس ہوں۔ پہلے تو میرے جیسے بچوں کے لیے آپ کو اسکول ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔ کچھ پرائیویٹ (NGOs)اور سرکار نے خانہ پری کرنے کے لیے ہمارے لیے اکا دُکا سنٹر بنائے ہوئے ہیں (جن میں سے اکثر کو میں نے آزمایا ہے) لیکن وہاں ہمارے لیے سہولتوں کا شدید فقدان ہے۔ میں ابھی جس اسکول میں جاتا ہوں وہاں کی تو اکثر وہیل چیئرز کے پاؤں رکھنے والی جگہ ہی ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے اور چیئر کی پوشش بھی جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی ہوتی ہے اور سب سے اہم میرے لیے تربیت یافتہ سٹاف اور(Medical Equipments) کی بہت کمی ہے کیونکہ میرے جیسے بچوں کے لیے عام سکولوں کی نسبت بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ایک کلاس میں بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے صحیح طریقے سے مل نہیں پاتی۔ ہمارے چلنے اور دیگر کاموں کی سہولت کے لیے دُنیا نے جو جدیدسازو سامان(Equipments) بنائے ہیں، اُن کی قیمت پاکستانی روپوں میں تقریباً 4سے5لاکھ سے شروع ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے ہماری ریاست ایسے اللوں تللوں کی تو بالکل متحمل نہیں ہو سکتی۔

 میرے والدین مجھے اپنے ملازمین یا ڈرائیور کے ساتھ گاڑی پر سکول بھیجتے ہیں۔ ابھی میرا موجودہ اسکول ایک بڑی یونیورسٹی کے احاطہ میں واقع ہے جہاں اکثر لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے مین گیٹ بند ہو جاتا ہے اور میں اسکول جائے بغیر گھر واپس آ جاتاہوں۔ چند روز قبل کسی V.I.Pنے یونیورسٹی کا دورہ کرنا تھا، اس لیے مین گیٹ میں تمام گاڑیوں کا داخلہ مکمل بند تھا۔ گیٹ پر متعین گارڈ کو بتایا گیا کہ میں چل نہیں سکتا اور اسکول یہاں سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن گارڈ نے کہا یا تو بچے کے لیے اسکول سے وہیل چیئر لے کر آؤ یا بچے کو پیدل اٹھا کر اسکول لے جاؤ ا ور واپسی پر بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔جس پرمیرا ڈرائیور گارڈز کے حکم پر دو دن تک مجھے پیدل اٹھا کر اسکول لے کر گیا اور پیدل اٹھا کر واپس لایا کیونکہ اسکول والوں کے پاس بھی کوئی فالتو وہیل چیئر نہیں تھی۔ اب میں اپنی بیماری کی وجہ سے باقاعدگی سے اسکول بھی نہیں جا پاتا لیکن اپنی فیس باقاعدگی سے لازمی ہر مہینے جمع کراتا ہوں ۔ کیوں کہ اسکول والے کہتے ہیں کہ اگر فیس جمع نہیں کرائی تو تمہارا نام کاٹ کر کسی اور کو داخلہ دیں گے۔کیوں کہ اسپیشل سکولوں کی کمی کی وجہ سے اسپیشل بچوں کی ایک بڑی تعداد ہر وقت داخلے کے لیے انتظار میں ہوتی ہے۔

اسکول سے گھر آ کر میرا زیادہ تر وقت ٹی وی پرکارٹون دیکھنے میں گزرتا ہے۔ اس کے علاوہ میری ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ میرے پاپا یا کزنز فوراً گھر آ جائیں تاکہ میں باقی وقت اُن کے ساتھ کھیل کر گزار سکوں۔ میرے گھر والے ہی میری ہر بات کو (جو کہ میں اشاروں سے بتانے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں) سمجھتے ہیں اور میری ہر جائز و ناجائز بات فوراً پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے اور میرے گھر والوں کے لیے وہ لمحہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب میں اپنی کوئی بات یا خواہش بتا نہیں پاتا یا وہ سمجھ نہیں پاتے، ایسی صورتحال تھوڑے وقت سے لے کر پورے دن پر بھی محیط ہوتی ہے۔ آخر کار میں رو دھو اور تھک ہار کر سو جاتا ہوں اور میرے گھر والے بھی بے بسی کے ساتھ چپ سادھ لیتے ہیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3