خاکی جمہوریت اور مبہم مجذوبی پیش گوئیاں


ایک ڈوڈی الفہد المشہور و مرحوم، لیڈی ڈیانا والے تھے، جنھیں سبھی جانتے ہیں۔ ایک ڈوڈی ہمارے کامریڈ ہیں، اشتراکی نظام کے دل دادہ، اور سرخ انقلاب کے داعی۔ جب بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف سے مفاہمت کی، تو ہمارے کامریڈ ڈوڈی نے عین پنجاب اسمبلی کے بالمقابل، تاج کمپنی کی بلڈنگ کے پہلو میں سجے ٹی اسٹال پر بیٹھ کر پیش گوئی کی کہ اس بار آمر سے مفاہمت کی ہے، تو بے نظیر بھٹو جان سے جائیں گی۔ ہم نے کامریڈ ڈوڈی کا خوب مذاق اڑایا، یہاں تک کَہ دیا، کہ آپ انقلاب کا انتظار کرنے کے بجائے توتا لے کر کسی فٹ پاتھ پر بیٹھ جائیں، دس بیس رُپے لے کر فال نکالا کریں۔ تین مہینے بھی نہیں گزرے تھے، کہ کامریڈ ڈوڈی کی پیش گوئی دُرست ثابت ہوئی۔

جب 27 دسمبر کا سانحہ ہوگیا، تو ہم نے غالب کے شعر کے مصرع میں تحریف کرتے ڈوڈی سے کہا۔
”تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ ’کامریڈ‘ ہوتا“۔
”ولی کون ہوتا ہے“؟ کامریڈ نے برا سا منہ بناتے پوچھا۔
”خدا کا دوست“۔ انھیں خبر دی گئی۔
”خدا کون“؟
کامریڈ کے اس سوال کا ہمارے پاس کیا جواب ہوتا۔ ہماری بے بسی محسوس کرتے، کامریڈ نے وضاحت کی۔

”میں کوئی ولی وُلی نہیں؛ میں نے تاریخ کے مطالعے سے جانا کہ غاصب سے مفاہمت کا بالآخر یہی انجام ہوتا ہے؛ غاصب سے بھلا کس بات پر مفاہمت؟ غاصب کو اس کے انجام تک نہیں پہنچایا جائے گا، تو وہ آپ کا ’دی اینڈ‘ لکھ دے گا“۔

بے نظیر بھٹو کی موت کی پیش گوئی کسی اور نے بھی کی تھی؛ اُس وقت جب نواز شریف اور بے نظیر کی وطن آمد کی کوئی اُمید تک نہ دکھائی دیتی تھی؛ لیکن یہ قصہ میں نے بے نظیر کی شہادت کے بعد سنا۔ دروغ بگردن راوی! واقعہ کچھ یوں بیان ہوا کہ پاکستان کے سب سے بڑے صحافتی ادارے کے کراچی دفتر کے باہر پان کا کھوکھا ہے۔ وہاں کبھی کبھار ایک مجذوب آ بیٹھتا تھا۔ ایک روز اخبار کا مالک عمارت کے باہر گاڑی سے اُترا، تو مجذوب نے راستہ روک لیا، اور بنا کسی تمہید کے بے نظیر کے لیے کہا، کہ انھیں قتل کردیا جائے گا، لندن والا خودکشی کرلے گا، اور پنجاب کے سب سے بڑے لیڈر کو پھانسی دے دی جائے گی۔ اخبار کے مالک نے سنی ان سنی کرتے اپنی راہ لی۔

27 دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کو کی شہادت کی خبر آئی تو مذکورہ اخبار کے مالک نے اپنے کارندوں کو دوڑایا کہ اس مجذوب کا پتا کرو، وہ کہاں ہے۔ راوی کا کہنا ہے، کہ بسیار تلاش کے وہ دیوانہ کہیں نہ دکھائی دیا۔ یہ داستان سنانے والے صاحب کو کامل یقین ہے، کہ ایسا ہی ہونا ہے؛ جیسا کہ مجذوب نے پیش گوئی کی ہے؛ اس لیے جب کبھی اُن کے سامنے سیاست پر گفت گو ہو، وہ دو ٹوک الفاظ میں کہتے ہیں۔
”بتا تو دیا ناں کہ کیا ہونا ہے؟! تو اب چپ کر کے انتظار کیجیے“۔

کچھ تو کامریڈ ڈوڈی جیسے دوستوں کی صحبت کا اثر ہے، اور کچھ اللہ کے نیک بندوں کی رفاقت کا انعام کہ مجھے بھی مستقبل کا احوال معلوم ہوجاتا ہے۔ میرے موکل گزشتہ چار برس سے یہ خبر دے رہے ہیں، کہ اول تو 2018ء کے عام انتخابات نہیں ہوں گے؛ ایسی کوئی صورت بنی بھی، تو انتخابات کے دوران یا فورا بعد کچھ ایسا منظر اُبھرے گا، کہ موجودہ جمہوری نظام کا مکو ٹھپ دیا جائے گا۔ آپ میں سے بہت سے ہوں گے، جو ’موکلین‘ کا یقین نہیں کرتے، لیکن اس سے ’موکلین‘ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

حجت اتمام کرنے کے لیے میں نے موکلین کے قائد سے تکرار کی، کہ پاکستان میں جمہوریت اپنے سنہرے دور سے گزر رہی ہے؛ میڈیا مکمل آزاد ہوچکا، جس کی چاہے پگڑی اتار کے رکھ دے، کوئی روک ٹوک نہیں ہے، اس لیے بھی کہ ہماری عدالتیں آزاد ہیں، ان کے آزادانہ فیصلے اُن کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں؛ نیز عالمی منظر نامہ دیکھنے سے پتا چلتا ہے، کہ اس جمہوری نظام کو ہائے جیک کرلیا گیا، تو آزاد میڈیا، آزاد عدالتیں مزاحمت نہ بھی کرسکیں تو بیرونی امداد پر انحصار کرنے والی ریاست مشکلات میں گھر جائے گی۔

موکل نے بیزاری کا اظہار کرتے ’آزاد میڈیا‘ کے لیے جو کہا، وہ یہاں لکھنا نامناسب ہے، اور عدلیہ کی تو موکل نے بھی توصیف بیان کی تھی؛ چاہے آپ مجھ سے قسم لے لیں۔ اس کے بعد موکل کے الفاظ کچھ یوں رہے۔

”میں عالمی حالات، سیاست، سفارت کاری، اور اس طرح کے دیگر مباحث میں الجھنے کے بجائے یہ دیکھتا ہوں، کہ پاکستان کا فیصلہ کرنے والی قوتوں کا مزاج اور نفسیات کیا ہے؛ ان کی نفسیات کا مطالعہ کرنے کے بعد میں آپ کو صاف کہے دیتا ہوں، کہ پاکستان کی جمہوریت خاک“ ۔۔۔۔ اتنا کہ کر موکل خاموش ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا، کہ کوئی سن تو نہیں رہا۔ پھر سرگوشی میں دُہرایا، ”پاکستان کی جمہوریت سنہری نہیں، خاکی ہے“۔

اس کلام کا حاصل کیا ہے، یہ تو آپ ہی سمجھیں۔ 2018ء کے انتخابات سر پہ ہیں۔ دیکھتے ہیں موکل سچا ثابت ہوتا ہے، یا مجذوب کی بڑ کہاں‌ تک تقدیر بنتی ہے؛ باقی رہے کامریڈ ڈوڈی تو اُن سے میں کہتا رہتا ہوں، بالشویک اس حد تک ہڈ حرام ہیں کہ انقلاب آئے بھی تو انھیں دیکھ کر منہ موڑ لے گا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran