تیل اور کرونا وائرس کا بحران: سعودی عرب کی معیشت 7 فی صد سکڑ گئی


تیل پیدا کرنے والے علاقے خریص میں سعودی آئل کمپنی آرامکو کی تنصیب پر نصب ایک بورڈ۔ فائل فوٹو

سعودی عرب کی حکومت کے مطابق اس کی معیشت رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں سات فی صد تک سکڑ گئی ہے اور بے روزگاری کی سطح بھی ریکارڈ بلندی کو چھو رہی ہے۔

سعودی عرب خطے کا اہم ملک ہے اور اسلامی ممالک میں اسے ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ سعودی عرب کی ایک معاشی اہمیت بھی ہے اور وہ تیل پیدا کرنے والا دنیا کا ایک بڑا ملک ہے۔ اس کا شمار تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کے ایک بااثر ملک کے طور پر کیا جاتا ہے۔

سعودی عرب کی ایک اور معاشی اہمیت یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان اور ترقی پذیر اسلامی ملکوں کے ساتھ ساتھ خطے کے کئی دیگر ممالک کے لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

عالمی منڈی میں گزشتہ کچھ عرصے سے تیل کی قیمتیں مسلسل گر رہی ہیں اور کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے تیل کی کھپت اور مانگ بھی کافی گھٹ گئی ہے جس کے اثرات سعودی معیشت پر بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔

سعودی عرب کی سکڑتی ہوئی معیشت کے پاکستان اور علاقے کے دوسرے ملکوں پر کیا سیاسی اور معاشی اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے مشرقِ وسطی کے امور کے ایک ماہر، ایف سی کالج لاہور کے ڈاکٹر فاروق حسنات اور شکاگو اسٹیٹ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ظفر بخاری سے گفتگو کی ہے۔

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے سعودی عرب میں عمرے اور حج کے لیے جانے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے سعودی عرب میں عمرے اور حج کے لیے جانے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی۔

ڈاکٹر فاروق حسنات کے مطابق سعودی معیشت کے سکڑنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کرونا کے پھیلاؤ اور اس سلسلے میں نافذ کردہ پابندیوں سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ سعودی عرب نے کم طلب کے باوجود زیادہ تیل برآمد کرنے کی کوشش کی۔

اس تمام عرصے میں تیل کی قیمت عمومی طور پر 30 ڈالر فی بیرل سے اوپر نہیں گئی جب کہ ماہرین کے اندازوں کے مطابق اگر تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل سے کم ہو تو سعودی عرب کو منافع نہیں ہوتا۔ اس سے نہ صرف سعودی عرب کو نقصان ہوا، بلکہ بے روزگاری کی شرح بھی ریکارڈ بلند سطح تک پہنچ گئی۔

انہوں نے کہا کہ دوسری بڑی وجہ سعودی حکومت کی جانب سے غیر پیداواری شعبوں کے غیر معمولی اخراجات ہیں۔

ڈاکٹر فاروق حسنات کے اس بارے میں حال ہی میں شائع ہونے والی دو کتابوں کا ذکر کیا۔ جن میں ان غیر پیداواری اخراجات کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بیرون ملک رہنے والے سعودیوں نے سعودی حکومت کے اخراجات کو سامنے لانے کے لیے دو گروپ بنائے ہیں جو حکومت کے بے پناہ غیر پیداواری اخراجات کو نہ صرف سامنے لا رہے ہیں بلکہ ان پر تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ناموافق حالات اور بہتر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے خطے میں بلاشبہ سعودی عرب کے سیاسی اثر و رسوخ کو نقصان پہنچے گا۔

ڈاکٹر ظفر بخاری کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی آمدنی کے دو بڑے ذرائع ہیں۔ ایک حج اور عمرہ کے پیکجز ،جو اس سال کرونا کی وبا کے سبب نہ ہونے کے برابر رہے، جب کہ آمدنی کا دوسرا ذریعہ تیل کی برآمد ہے۔ اس میں بھی طلب اور قیمتوں میں کمی کے سبب ان کی آمدنی میں نمایاں کمی آئی۔

ڈاکٹر ظفر کہتے ہیں “اہم بات یہ ہے کہ سعودیوں نے اپنا کوئی صنعتی ڈھانچہ بھی تعمیر نہیں کیا جو متبادل آمدنی فراہم کرتا۔”

ان کے بقول سعودی عرب کو موجودہ حالات میں اس لیے معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس نے بھلے وقتوں میں مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ اس لیے اب جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تو ہونا ہی تھا۔

ڈاکٹر ظفر بخاری نے سعودی اثر و رسوخ میں کمی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب آب پیسہ خرچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتے تو وہ ممالک جو پیسے کے لیے آپ کے گرد جمع ہوتے ہیں، وہ پیچھے ہٹنے لگتے ہیں۔ اگر خزانہ خالی ہو گا تو سیاسی اثر و رسوخ میں کمی آنا ایک فطری عمل ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو بدلتے ہوئے حالات کی نزاکت اور تقاضوں کو سمجھنا ہو گا اور متبادل ذرائع آمدنی کے حصول پر توجہ دینا ہو گی۔ اس سلسلے میں صںعتی شعبے کی ترقی اور فروغ کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa