پنجاب یونیورسٹی کے (سابق) استاد عمار علی جان کا موقف


بیرون ملک تعلیم مکمل کر کے وطن واپسی کے بعد میں پچھلے ڈھائی سال سے پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں سے وابستہ رہا ہوں۔ جون دوہزار سترہ سے میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سوشیولوجی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر پڑھارہا تھا گو کہ اس عرصے میں مجھے ابھی تک پنجاب یونیورسٹی سے کوئی ادائیگی نہیں ہوئی ہے۔

اس دوران مجھ پر یہ الزام عائد ہوا کہ میں طلباء کی بے جا حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ وہ بلاضرورت ہر موضوع پر آواز اٹھائیں۔ مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ میں نان ایشوز جیسے عورتوں کو بااختیار بنانے یا نسلی یا لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ جیسے معاملات پر بات کرتا ہوں جو یونیورسٹی کی پرامن فضا کو خراب کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

مزید یہ کہ کچھ طاقتور لوگوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں آپ کے قابل نہیں، کیوں کہ طلباء کا تعلیمی معیار پست ہے، اور وہ آپ کا استعمال کریں گے۔ آخر میں کچھ خاص حلقوں کی جانب سے مجھ سے کہا گیا کہ آپ کو منظور پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ سے دور رہنا چاہیے، ورنہ آپ کو اس کے برے نتائج بھگتنے ہوں گے۔

میں جانتا تھا کہ میں نے ایسا کچھ غلط نہیں کیا، میری تمام سرگرمیاں قانون اور اخلاقی ضابطوں کے دائرے میں رہی ہیں اور یہ کہ میں اپنی سچائی کسی بھی قانونی فورم پر ثابت کر سکتا ہوں۔

میں نے طے کیا تھا کہ میں طلباء کی جانب سے دی گئی محبت اور احترام کے عوض ہی یونیورسٹی میں رہوں گا، اور پڑھانا جاری رکھوں گا۔۔

گزشتہ روز جب میں پنجاب یونیورسٹی پہنچا تو میں نے دیکھا کہ میرے دفتر پر تالا پڑا ہوا تھا، دریافت کرنے پر کہا گیا کہ میں ڈائرکٹر سے ملوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ پڑھانا چھوڑیں اور یونیورسٹی نہ آئیں، دوسرے لفظوں میں مجھے یونیورسٹی سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ یہ لوگ مجھے کوئی معاوضہ نہیں دیتے تھے، لیکن یہ مجھے احترام بھی نہ دے پائے، اور مجھے انتہائی بے تکے اور توہین آمیز انداز میں نکال دیا۔

میں ان کے اس فیصلے کی وجوہات سمجھتا ہوں ان کو پڑھانے والے نہیں، جیل وارڈنز چاہیے جو نوجوان لڑکوں کو سیدھا رکھیں، پھر یہ کہ انہیں سوچنے والے طلبا نہیں چاہیے، انہیں زومبیز چاہیے جو بلاچوں وچرا احکامات مانیں اور باقی ماندہ معاشرے سے بیگانگی کا رویہ اپنائیں۔

یہ میرے ساتھ دوسری بار ہوا ہے، لیکن یہ لمحہ خاموش رہنے کا، یا افسوس کرتے رہنے کا نہیں ہے۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے، ہمیں وہی کرنا چاہیے، جو صحیح ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم کھڑے ہوں، اور اپنے تعلیمی نظام میں پھیلی بدعنوانی اور فکری پستی کو سامنے لائیں، اور اپنے معاشرے کو اس اندرونی انحطاط سے بچالیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم پھر سے لڑیں اور اپنے مستقبل کو بچالیں۔

آج کا وقت ہم سب سے یہ سوال اٹھانے کا تقاضا کرتا ہے، دا سنگہ آزادی دہ (یہ کیسی آزادی ہے؟)

(ترجمہ: مزمل افضل)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).