کچھ گدھوں کے حوالے سے


انوار فطرت

\"envar-fitrat\"

خبر ہے کہ گھوڑے انسانی چہروں سے ان کے تاثرات کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس امر کا انکشاف ایک برطانوی یونیورسٹی میں 28 گھوڑوں پر تحقیق کے بعد کیا گیا ہے۔ بتایا گیا کہ انسانی چہرے کے منفی تاثرات کو گھوڑا بائیں آنکھ سے دیکھتا ہے اور یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایسے موقع پر گھوڑے کے دل کی دھڑکن تیز بھی ہو جاتی ہے۔ منفی تاثرات کا مطلب چہرے پر غصے یا آزردگی ہے۔ ان میں غصے پر گھوڑا اندر ہی اندر کہیں خود بھی پیچ و تاب کھانے لگتا ہوگا اور افسردگی پر تشویش محسوس کرتا ہو گا۔ پس ثابت ہوا کہ گھوڑا جذباتی ہے… ہونا بھی چاہیے، بھئی بھانجا آخر کس کا ہے۔ اکثر لوگوں کو علم ہے کہ گھوڑا، گدھے کا بھانجا لگتا ہے۔

یوں کہیے تو زیادہ بہتر ہے کہ گدھا ماموں ہے۔ بعض ماہرین لسانیات کی تحقیق کے مطابق ممبئی میں ایک روایت ہے کہ جب کوئی خود کو گھوڑا ثابت کرنا چاہتا ہے تو کسی نہ کسی کو \”ماموں\”‘ بنا دیتا ہے۔ اس روایت نے ہمارے ہاں کا ایک مسئلہ حل کر دیا۔ وہ یہ کہ یہاں گدھے کے لیے ایک بھلے سے نام کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔ یاد رہے کہ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ہاں اٹھارہ کروڑ ماموں پائے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی کم نہ ہوں گے لیکن ہماری برتری یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے ماموں اپنے بھانجوں کی ٹریڈنگ کے مرہونِ منت بھی ہیں۔

عربوں کے پاس دولت اربوں میں ہے تو ہمارے پاس وقت کی فراوانی ہے۔ لہٰذا ہم دونوں کچھ فضول خرچ سے واقع ہوئے ہیں۔ کبھی توفیق ہو تو تھوڑا سا وقت نکال کر گدھے پر غور فرما لیں، اس کی عظمت کے کئی پہلو آپ کو حیرت زدہ کر دیں گے۔ اس کی شریف النفسی، اس کے حسب نسب، اس کے صبر، اس کی برداشت، اس کی مشقت و سعی پر نظر کیجے، اس کا ہمہ وقت گیان، دھیان میں گم رہنا ملاحظہ فرمایے۔ گیان دھیان کے عالم میں اچانک اس کا ’ڈھینچنا‘ سماعت کیجئے۔ اس ’ڈھینچ‘ کو بعضے قدر ناشناس روئے ارض کی کرخت ترین ہنسی قرار دیتے ہیں اور ’خندۂ بے جا‘ کی پھبتی بھی کس جاتے ہیں۔ یہ \’خندۂ بے جا\’ والی پھبتی سراسر ناانصافی ہے کیونکہ اپنے گیان دھیان کے کسی مقام پر جب اس دنیا کی بے ثباتی اور اس کے کم مایہ ہونے کا راز اس پر وا ہوتا ہے، تو انسان کی حماقتوں پر اس کا ردِ عمل ایسا کرخت ہی ہونا چاہیے، اس پر مترنم تبسم تو نہیں فرمایا جا سکتا۔

گدھا تو گدھا ہے بھائی! اپنی صداقت پر پردہ ڈالنے کا تکلف کر جائے تو پھر گدھا تو نہ ہوا ناں…. اور اس کی بھی آپ کیا ضمانت دے سکتے ہیں کہ وہ قہقہہ ہی لگاتا ہے، عین ممکن ہے، وہ ہماری عقل پر ماتم فرما رہا ہو۔ خیر! اس پر ہم ہیچمدان کیا کہ سکتے ہیں، کوئی گدھا ہی ڈھنگ کا تبصرہ کر سکتا ہے یا پھر چنیوٹ کے ان پولیس اہل کاروں سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے، جنہوں نے پچھلے دنوں ایک گدھے کو گرفتار کرکے حوالات میں ڈال دیا تھا۔

پولیس کا ذکر آ ہی گیا ہے تو اعتراف کرتے چلیں کہ ہمارے دل میں پولیس کا بھی بہت احترام ہے (ازرہِ کرم اس جملے میں لفظ \’بھی\’ پر زور نہ دیجئے گا)۔ پولیس میں ایک لاکھ خوبیاں ہیں، ہر خوبی کی آگے ایک لاکھ ذیلی خوبیاں ہیں اور آگے ذیل در ذیل خوبیاں… اب کس کو اتنا جگر ہے کہ بیان کرے، کہیں کسی ایک بھی خوبی میں گھر گئے تو خود سے جائیں، سو ایک بھی گنوانے سے قاصر ہیں۔

ہر چند قانون کی پاسداری ہم بہت کرتے ہیں لیکن اس میں کچھ خوف بھی ہمارے درپے رہتا ہے۔ اس کو ایک مصرعے سے سمجھنے کی کوشش کیجے، پورا شعر تو اب یاد نہیں لیکن کام کا مصرع یاد ہے کہ ’’نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی‘‘ سو پولیس ارادہ کر کے آپ کا ماپ لینا نہیں شروع کر دیتی، بس ایسا کچھ اس سے سرزد ہوجاتا ہے۔ ہرگز ضروری نہیں کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی ہو، آپ ضرور \’حقیر فقیر\’ ہوں گے لیکن ضروری نہیں کہ \’پر تقصیر\’ بھی ہوں، آپ سے کچھ دشمنی تو ہے نہیں۔ یہ \”’نظر آخر نظر ہے\” کی جگہ اگر \”پولیس آخر پولیس ہے\” کسی طرح (اپنے اصلی تلفظ کے ساتھ) وزن اور بحر میں آ جائے تو میرا کہا آپ زیادہ آسانی سے سمجھ پاتے لیکن یہ کسی بحر و وزن میں نہیں آ رہی، سو تھوڑی اور کوشش کر کے سمجھ لیجئے۔

یہ ذہن انسانی بھی عجب ہے، لکھتے لکھتے اللہ جانے کہاں سے وہ حکایت یاد آ گئی، جس میں ایک ’انتہائی گدھے‘ نے بم کے دولتی جھاڑ دی تھی۔ اب یہ حکایت یاد آئی تو خیال کی رو بھٹک کر نہ جانے کیسے کراچی کی اس عدالت کو جا نکلی جہاں ایک حد درجے حقیقت پسند جج کی فرمائش پر ایک حد درجے فرماں بردار پولیس والے نے بم کی پن نکال کر دکھا دی ۔ لگتا ہے اس واقعے میں عدلیہ اور پولیس ایک دوسرے پر اپنے برتری ثابت کرنا چاہتے تھے اور بے شک دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر نکلے، دونوں شعبوں کے مستقبل کے مورخ اس واقعے کو سنہری الفاظ میں رقم کریں گے۔ زبردست….زبردست!!! اس کارِنمایاں پر دونوں بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ ذرا رکئے تو! اس واقعے سے آپ کے ذہن میں موازنے کی کوئی فضا تو نہیں بن رہی؟ ایسا ہے تو یہ زیادتی ہے۔ یاد رکھیے! گدھا کتنا ہی خوش خصال و باکمال ہو جائے، آدمی کے شرَف کو نہیں پہنچ سکتا۔

اب اس خیال کی رو کا کیا کروں کہ رکنے میں نہیں آ رہی، خواہ مخواہ راجن پور کے ’’ضربِ آہَن‘‘ کی طرف نکل پڑی، جس کا جواب بد ذوقوں نے ’’….آ…. ہُن….‘‘ کی صورت میں دیا۔

بات ہم گھوڑوں کی کرنے چلے تھے، مقطع تک آتے آتے سخن گستری سی سرزد ہوگئی لیکن گھوڑے پر بات ادھار رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments