چنگیز خان جاگیر دار اور مظلوم عورت


جاگیر دار اپنی جھوٹی انا سے ابھی تک نہیں نکل پائے۔ کئی انار کلیاں آج بھی ان کے اصولوں اور ظلم کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ جاگیر دار کے لئے عورت آج بھی ایک جانور ہے۔ جس کے ہاتھ میں اس کی رسی دے دی جاتی ہے وہی اس کا وارث ہوتا ہے۔ مردوں کے کیے گئے قصور کی سزا بھی عورت کی ونی دے کر معاف کرائی جاتی ہے۔ اپنی ہی ایک کزن کا واقعہ ہے۔ میری کزن کا رشتہ دے کر دو خاندانوں کی دشمنی ختم کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دونوں خاندان عورت کو اپنا اپنا ہتھیار سمجھتے ہوئے رشتہ طے ہو نے پہ خوش ہوتے ہیں۔

لوگ دشمنی ختم کرنے پر دونوں خاندانوں کو مبارک باد دیتے ہیں۔ شادی کا دن آ پہنچتا ہے۔ لڑکی کے باپ اور بھائی اس بات کو لے کر خوش ہیں کہ اس کے ذریعے اپنے دشمنوں کو دھو ل چٹا سکتے ہیں۔ جو شاید باہر بٹیھ کے نہ کر پاتے۔ سسرال والے یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اچھا ہتھیار مل رھا ہے دشمن کو جھکنے پہ مجبور کر دیں گے۔ خیر شادی کا دن آ پہنچا شادی شروع ہوگئی بارات لے کر لڑکے والے پہنچ گئے۔ جاکر کیا دیکھتے ہیں۔ دلہن کے بھائیوں نے لڑکے کے چچا کے قاتلوں کو بھی اپنے گھر بلا رکھا ہوتا ہے۔

لڑکے کے باپ کے تو جیسے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی ہو۔ غصے اور آنسو بھری آنکھوں سے بیٹھ تو گیا کیونکہ برات واپس لے جانا بھی اپنی تو ہین سمجھا تھا اور وہ بھی اکلوتے بیٹے کی۔ رخصتی کروا کے اپنی ہار کو دل میں لئے ہوئے واپس آجاتے ہیں۔ سارا گاؤں بھڑکانے اور جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتا ہے۔ اگلے ہی دن دلہن کو سنا دیا کہ نہ تیرے میکے سے کوئی ہمارے گھر آئے گا اور نہ ہم سے کوئی اُمید رکھنا۔ لڑکی چپ چاپ سب سُن کے میکے جاتی ہے۔ آگے سے بھائی کہتے تیرے سسرال والے ہمارے دشمن تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ لیکن تم وہ کرو گی جو ہم کہیں گے۔ ان کے گھر تو مہمانوں کی طرح جائے گی سارا زیور پیسے جو سلامیوں کے بنے تھے وہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔

آئے دن دونوں خاندان جھگڑے کرتے رہتے کبھی زمینوں کے پانی کو لے کر تو کبھی سیاسی پارٹیوں کو لے کر لڑکی تو جیسے لُڈّو کا دانہ بن گئی کبھی ایک کے ہاتھ تو کبھی دوسرے کے۔ کبھی میکے والوں کو شکست ہوتی تو لڑکی کو اپنے گھر بیٹھا لیتے۔ بیٹا پیدا ہو گیا۔ زمین کو لے کر پھر جھگڑا ہو گیا بھائیوں نے کہا بچے کو چھوڑ کے آنا سسرال نے کہا ہمارا بچہ مت لے جانا۔ بچاری دل پہ پتھر رکھ کے بچے کو چھوڑ کر چلی گئی۔ محلے کے ایک استاد صاحب تھے یا بابا رحمتے سمجھ لیں ان کو خدا کا خوف آیا اور دونوں خاندانوں کی منت سماجت کرکے بچہ ماں کو دلوایا۔ بچے کے ماموں اور نانا دن رات اس کو باپ کے خلاف کرتے رہتے کہ بچے کو لگنے لگا واقعی اس کا باپ کوئی ہٹلر ہے۔ چار سال گزر گئے۔ بابے رحمتے جیسے لوگ بچے اور ماں کو راضی کرکے واپس لے آئے۔

میری کزن کا شوہر اپنے خاندان کا اکلوتا وارث تھا اور رشتے دار چاہتے تھے کہ اس کا گھر بستا رہے۔ اس لئے ان کی منت سماجت کرکے راضی نامے کی کوشش کرتے۔ بچہ چار سال بعد گھر آتا ہے دادا دادی تو جان نچھاور کرتے کہ ہمارے گھر کا چشموں چراغ واپس آ گیا دادی آئے دن نظر اُتارتی دنیا جہان کی نعمتیں آگے رشتے دار دوست سب جیسے کوئی شہزادہ ہو۔ جب بھی زندگی معمول پہ آنے لگتی نجانے کس کی نظر لگ جاتی یا کوئی سازش کرتا پھر کوئی نہ کوئی جھگڑا ہوجاتا اور تو میکے والے بلا لیتے یہ سوچ کر کہ ان کے بیٹے کے گھر اُجاڑنے سے اچھا بدلہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ بچاری چلی جاتی نہ جانے کیا سوچ کر اب ایک بچی بھی پیدا ہوگی کوئی چھ ماہ کی ہوگی اس کو ساتھ لے گئی۔ لیکن بیٹے کو باپ نے شہر میں اپنے رشتے داروں کے ہاں پڑھنے کے لئے بھیج دیا۔

وہ روتا چلاتا اب تیسرے گھر اور نئے ماحول میں چلا گیا۔ بچی جو ماں کے ساتھ تھی نجانے کیا ہوا رات کو سوئی تو صبح مُردہ حالت میں پائی گئی۔ میکے والوں نے خاموشی سے دفنا دی کہ دشمنوں کی بیٹی ہے ہم کیوں اس کا افسوس منائیں۔ اور سسرال میں سے تو کوئی آیا ہی نہیں۔ پھر لوگوں نے چار پانچ سال بعد راضی نامہ کرایا دیکھتے ہی دیکھتے دو بیٹیاں اور ہو گئیں۔ بچوں کے باپ نے تعلیم کا کہ کر شہر میں گھر لیا شاید بچوں کو ان حلات سے بچانے کے لئے اس کو یہی راستہ نظر آیا۔ اس طرح سب بچوں کو بیوی کو لے کر راولپنڈی چلے گئے۔ بچوں کو سکول میں داخل کرایا اور ایک مکمل فیملی کی طرح خوشی خوشی رہنے لگے۔

سال ہی گزرا ہو گا کہ میری کزن کو ہمسائے بلانے آئے کہ آپ کے کوئی مہمان ہیں شوہر ڈیوٹی پہ تھا۔ جاکر دیکھا تو ہمسایوں کے گھر بھائی آیا ہوا تھا۔ کہنے لگا امی بیمار ہے اور تجھے لینے آیا ہوں۔ سوال جواب کا حق میری کزن کے پاس نہیں ہوتا تھا۔ سامان باندھا اور ہمسائیوں کو چابی دی اور پیغام دیا کہ جلدی واپس آ جاؤں گی۔ بتاتی چلوں کہ اس زمانے میں موبائل نہیں ہوتے تھے۔ ان دنوں کی بات ہے جب ضیاء دور تھا۔ جب میکے گئی تو بھائیوں نے واپس نہ آنے دیا۔ بچوں کے باپ نے کچھ مہینے دیکھا جب نہ آئی تو بیٹے کو اپنے پاس رکھا اور بچیوں کو دادا دادی کے پاس بھیج دیا کہ ملازمت کے دران سب کی دیکھ بھال مشکل تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچے جوان ہوگئے۔ بچوں کے باپ کو لوگوں نے بہت کہا کہ دوسری شادی کرلو۔ لیکن وہ کہتا میرے بچوں نے بہت دکھ دیکھے ہیں۔ ان کو سوتیلی ماں کا دکھ میں نہیں دے سکتا جو میرا دیا ہوا درد کہلائے گا۔

لڑکا اعلی تعلیم یافتہ ہو کر ایک سلجھا ہو نوجوان بنا۔ ایم۔ بی۔ اے کیا۔ اب بچوں کی شادیاں کرنی تھی۔ لڑکے کے لئے رشتہ دیکھنے جاتے تو بہنیں ڈر ڈر کے جاتیں کہ کوئی ماں کے بارے پوچھے گا۔ تو کیا جواب دیں گے لیکن آگے سے لوگ متاثر ہوتے کہ ایک باپ نے دوسری شادی نہیں کی اولاد کی خاطر اور اکیلے بچوں کو پالا حالانکہ کافی رول تو دادا دادی کا بھی تھا۔ خیر لڑکے کا رشتہ ہو گیا شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ماں کو لینے گئے سب بہن بھائی میری کزن آنے لگی تو بھائی اور بھابھی نے کہا اگر تو گئی تو ہمارے لئے مر جائے گی۔ ایک کنواری بہن بھی تھی سب نے روک لیا۔ بتاتے چلیں میری کزن کی جو بھابی تھی اس کے باپ نے دوسری شادی کی تھی اور وہ اس شادی کا قصوروار باپ کی بہن کو سمجھے تھے۔ جو میری کزن کی ساس تھی امیری کزن کی بھابی کی پھوپھی تھی اجکل کی نسل تو انڈیا سے سیکھ کے بُوا کہتی ہے۔

آخر ماں مجبوریوں کی زنجیر میں جکڑی رہی اور تینوں بچوں کی شادیاں ہو گئیں۔ بے بسوں کی طرح بھابی کے کام کرتی۔ بچے باہر کے ملکوں میں سیٹ ہو گئے۔ باپ اکیلا رہ گیا اور میری کزن کے بھائی کے بچوں کی شادیاں ہو گئیں۔ اکیلی پڑی رہتی اور۔ بیٹا پاکستان جاتا تو گھر آنے کا کہتا تو آگے سے کہتی میں مجبور ہوں مجھ سے قسم لی گئی ہے۔ بیٹا ماں کو کچھ پیسے شاید دے اتا تھا۔ خیر ایک دن 2015 میں مجھے پاکستان سے کال آئی کہ تیری کزن چار پائی سے گر کے بیہوش ہو گئی ہے۔ اور بھائی کسی سرکاری ہاسپٹل میں لے کے بیٹھا ہے۔ پھر دو دن بعد اطلاع ملی کہ فوت ہو گئی ہے۔ بچے اپنی اپنی دنیا میں خوش اور شوہر آج بھی تنہا زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).