ہم کیا ہماری سیاست کیا؟


سیاست کو اگر علامہ ابن خلدون کے متعارف کردہ معنوں میں لیا جائے تو پھر یہ سینے میں دل بھی رکھتی ہے اور آنکھ میں حیا بھی رکھتی ہے۔ کیونکہ علامہ مرحوم کے ہاں” ایک سیاستدان خلق خدا کے دنیوی مفادات کا ضامن ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دینی امور سنوارنے کا کفیل بھی ہوتا ہے‘‘۔ البتہ بے چاری سیاست کے سینے سے دل اور آنکھ سے آب ِ حیا توتب لاپتہ ہو جاتے ہیں جب یہ مملکت خداداد جیسی ریاست میں پناہ لے لیتی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس مقدس پیشے کو بے وقعت کرنے میں اس ملک کے بڑے صوبے کے شریفوں اور چوہدریوں نے کوئی کسر چھوڑی ہے، نہ ہی سندھ کے زرداریوں اور مخدومو ں نے اس کے ساتھ رحم والا معاملہ کیا ہے۔

خیبرپختونخوا میں کپتان صاحب جیسے لوگ اسے ایک ننگی گالی کے طور پر پیش کر رہے ہیں یا پھر دین دوستی کے نام پرکچھ لوگ اس کو دولت اور شہرت کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ بلوچستان چونکہ ایک بدقسمت صوبہ ہے یوں سیاست کو دل اور حیا سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے سرداروں، نوابوں اور قوم پرستوں نے اس میں اوباشی کا عنصر بھی شامل کیا ہے۔ اس صوبے میں اوباشانہ طرز سیاست کو متعارف کروانے میں اگرچہ بلوچ نوابوں اور سرداروں کا نام زیادہ لیا جارہا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ پشتون بیلٹ کے بہت سے لوگ بھی سیاست کے اس ٹرینٖڈ کو اپنانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔

اس حوالے سے پہلے ایم ایم اے دور میں جے یو آئی کے اس وقت کے صوبائی وزیرصحت حافظ حمداللہ اور بعد کی حکومت میں اسی جماعت کا ایک اور صوبائی وزیر مولانا سرور ندیم جیسے لوگ بھی ڈرانے، دھمکانے اور مکا مار سیاست میں خاصے مشہور تھے۔ حافظ صاحب کی جارحانہ طرز سیاست کی بہترین مثال توگوگل پر موجود ایک ٹی وی ٹاک شو ز میں بھی دیکھا ملاحظہ کیا جاسکتاہے جب وہ ایک خاتون اینکر کو صلواتیں سنارہے ہیں۔ وزارتوں سے دور ہوکراگرچہ جے یوآئی کے ایسے مردانِ جری آج کل پس منظر میں چلے گئے ہیں توگویا محمودخان اچکزئی کے بھائی مجید خان اچکزئی ان کا قائم مقام ہوگیاہے۔ کہا جاتاہے کہ مجید خان اچکزئی کی بدمعاشانہ پالٹیکس اسٹائل قلعہ عبداللہ میں پہلے بھی مشہور تھی لیکن ہم جیسے بے خبرطالبعلموں کا اس کا علم اس وقت ہوا جب پچھلے سال اچکزئی صاحب نے کوئٹہ میں ایک غریب پولیس کانسٹیبل کواپنی تیز رفتار گاڑی سے بے رحمی کے ساتھ کچل ڈالا۔

جارحانہ طرز سیاست کے میدان میں آج کل پاکستان مسلم لیگ ق کے معمر سیاستدان شیخ جعفر خان مندوخیل بھی وارد ہوئے ہیں۔ شیخ جعفر خان مندوخیل اسٹیٹس کو کی دنیا میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحیم وکریم ذات نے انہیں بلوچستان کے تاریخی ضلع ژوب سے صوبائی اسمبلی کی نشست پرکم ازکم چھ مرتبہ عوامی خدمت کرنے کا موقع دیا ہے۔ موصوف کوپچھلے عام انتخابات میں بھی اسی نشست پر ژوب کے عوام نے کامیاب کرایا، جنہیں بعد میں بلوچستان کی مخلوط حکومت کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کابینہ میں بیک وقت دو وزارتوں کا قلمدان بھی ملا۔ مری معاہدے کے تحت ڈھائی سال بعدڈاکٹر بلوچ کی جگہ وزیراعلیٰ بننے والے نواب ثناء اللہ زہری کی کابینہ میں بھی وہ وزیر رہے۔ چند ماہ قبل بلوچستان اسمبلی کی نئی سیٹ اپ میں نواب زہری کا عہدہ عبدالقدوس بزنجوکو منتقل ہوا، یوں اس نئی کابینہ میں بھی شیخ صاحب اس وقت ایک اہم وزارت انجوائے کررہے ہیں۔ موصوف وزیر اگرچہ ژوب کو اخبارات میں ہمیں سوئٹزر لینڈ اور فرانس جیسے ملکوں کا ایک پررونق شہر باور کرارہاہے لیکن حقیقت میں ژوب وہی ژوب ہے جسے ایک زمانے میں یہاں آئے ہوئے ایک اجنبی نے ازراہ مذاق ” ژوبلیدہ‘‘ (زبوں حال علاقہ ) جیسے نام سے تعبیر کیاتھا۔

دس بارہ گلیوں اور چند سڑکوں کے اس شہر کی پیوند لگی سڑکیں نئی شکل میں دیکھنے کو ملتی ہیں اور ناہی تعلیم کے شعبے میں کوئی تبدیلی لائی گئی ہے۔ صحت کا شعبہ ماضی کی طرح آج بھی جوں کا توں اور قابل رحم ہے۔ شہرکے واحد سول اسپتال میں ڈلیوری کیسز کے لئے جس گائناکالوجسٹ کے نام پر برسوں سے سرکاری بنگلہ الاٹ ہے، وہ تادم تحریر کوئٹہ میں رہائش پذیرہیں۔ بے شک چند ایک صاحب قدرت لوگ تو پھر بھی ایسے کیسز کو کمبائنڈ ملٹری اسپتال کے خاتون ڈاکٹر سے بھاری فیسوں کے عوض نمٹاتے ہیں جبکہ ایک عام غریب آدمی اسی سول اسپتال کا رخ کرتے ہیں جہاں پر ایسے کیسزکے آپریشنز بھی مرد ڈاکٹرز کنڈکٹ کررہے ہیں۔ حقیقی بدنصیبی تو یہ ہے کہ ژوب عوام کا یہ پکا نمائندہ ایک طرف اپنی کچی اور غیر تسلی بخش کارکردگی کو بہتر کرنے میں بری طرح ناکام آئے ہیں تو دوسری طرف مفت میں اپنی مدح سرائی کے بھی حددرجے مشتاق بھی ہیں۔

الحمد ان کی اٹھائیس سالہ طویل ترین دور نمائندگی میں پہلی مرتبہ ان کی کمزور کارکردگی کے کچھ ناقدین بھی منظرعام پر آئے ہیں، جن میں اے این پی کے ضلعی صدر انورلالہ اور نوجوان صحافی اسدخان بیٹنی کے علاوہ ایک سماجی تنظیم کے چیئرمین فضل امین مندوخیل جیسے لوگ سرفہرست ہیں۔ انورلالہ اور عوامی تحریک کے فضل امین مندوخیل ایک عرصے سے احتجاجی مظاہروں میں جبکہ اسد بیٹنی اپنے ماہنامہ” نوائے قیسا‘‘ میں موصوف کی قابل رحم کارکردگی کو ہدف تنقید بنارہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شیخ صاحب اپنی غیرتسلی بخش کارکردگی پرخوب نظر ثانی کرتا، لیکن حال یہ ہے کہ انہوں نے الٹا اپنے ناقدین کی پٹائی کرنے کی ٹھان لی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک مقامی ہوٹل میں موصوف کی صدارت میں میں تعلیم کے موضوع پر ہونے والی تقریب میں ان کی حالت اس وقت غیر ہوگئی جب ان کے ایک ناقد فضل امین مندوخیل نے شہر کے مختلف مسائل کا خوب رونا رویا۔

ژوب کالج کے پروفیسر یوسف خان صاحب ( جو اس تقریب میں اسٹیج کے فرایض انجام دے رہے تھے) گواہ ہیں کہ اپنی تقریر کے دوران فضل امین مندوخیل نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جس میں براہ راست شیخ صاحب کو نشانہ بنایاگیا ہو لیکن شیخ صاحب اپنی تقریر کے دوران خود بھی برس پڑے اور ان کے ساتھی بھی طیش میں آگئے‘‘۔ تقریب ختم ہونے کے بعد ان کے جیالے پہلے تو صحافی خان اسد بیٹنی کے پیچھے لگ گئے یہاں تک کہ شام کو اُن پر اپنی دکان میں حملہ آور ہو کربری طرح زخمی کیا۔ اگلے دن فضل امین مندوخیل تک ہی شیخ صاحب کے یہ سپاہی پہنچ گئے یوں اُس بے چارے کو بھی خون میں نہلاکر دم لیا۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ان کے شدید ناقداور سیاسی حریف انورلالہ معمول کی طرح اب بھی ان کے خلاف اسی طرح بول رہے ہیں جس طرح پچھلے سال چیف جسٹس بلوچستان محمدنور مسکانزئی کی موجودگی میں ان کی کلاس لی تھی۔

لیکن انور لالہ کے پیچھے شاید وہ صرف اس وجہ سے اپنے جیالے لگا نہیں سکتے کہ ایک طرف وہ مضبوط خاندانی حیثیت کے حامل ہیں تو دوسری طرف سینکڑوں کی تعداد میں سرخ پوش نیشنلسٹ بھی رکھتے ہیں۔ اس تقریب میں بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکرجمال شاہ کاکڑ بھی مہمان خصوصی کے طور پر تشریف فرماتھے، جنہوں نے بھی اپنی باری آنے پر سنجیدہ خیالات کا اظہار کرنے کی بجائے خوب زبانی نشتر زنی سے کام لیا۔ کاکڑ صاحب کے مطابق ”صوبے کی تعلیمی زبوں حالی کے ذمہ دار صرف وہ لٹیرے ٹائپ اساتذہ اور پروفیسرز ہیں جو طلباء کے حقوق کا استحصال کررہے ‘‘۔ میں نہیں سمجھتا کہ کاکڑ صاحب نے ابھی تک تاریخ کی وہ مستندکتا ب کیوں نہیں پڑھی ہے جس میں اس ملک کے اصل لٹیرے وہ بیوروکریٹس اور ایم پی ایز او ر وزراء بتائے گئے ہیں جن کے چپڑاسی اور نوکر کی بھی پانچوں انگلیاں ہمہ وقت گھی میں ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).