حامد میر کے نام کھلا خط


محترم حامد میر صاحب امید ہے آپ بہتر ہوں گے اور اپنی صحافت پر انتہائی خوش بھی ہوں گے صحافت کے شعبہ میں آپ ایک نام ایک پہچان ہیں اور اسی پہچان کی وجہ سے لوگ آپ کی سوچ سے اختلافات رکھنے کے باوجود آپ کو شوق سے پڑھتے ضرور ہیں شاید یہی سوچ کر پڑھتے ہوں گے کہ حامد میر اپنے ملک کے لئے نہ سہی، سڑک، گلی کوچوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح ذلیل و خوار ہونے والی بدقسمت عوام کے لئے نہ سہی، بھوک و افلاس کی وجہ سے ممتا کا اپنے پھول جیسے بچوں کا اپنے ہاتھوں سے گلا دبا کر خودکشی کرنا ایسی ظالم ماؤں کی بے بسی کے لئے نہ سہی، سات آٹھ سال کے یتیم بچے جن کی عمر پڑھنے کی تھی مگر پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ہوٹلوں اور گیراج پر کام کرنے پر مجبور ہیں ایسے مجبور بچوں کے لئے نہ سہی، دوشیزائیں جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے خواب پورے کرنے کے لئے اپنا قیمتی احساس اپنا جسم فروش کرنے پر مجبور ہیں

ان دوشیزاؤں کی نیلام ہوتے ہوئے جسموں کے لئے نہ سہی مگر حامد میر صاحب اپنی صحافت اپنے شعبہ سے بہت مخلص ہیں شاید اپنے شعبہ کے لئے سہی مگر ضرور سچ ہی لکھتے ہوں گے یہی وہ وجہ ہے کہ آپ کے مخالفین بھی آپ کو پڑھتے ہیں کیونکہ آپ اپنے شعبہ اپنے قلم کے ساتھ غداری نہیں کرسکتے اور امید ہے آپ مذکورہ مسائل میں گِھرے مجبور و لاچار عوام کے لئے نہ بھی لکھیں مگر اپنی صحافت سے وفا کرتے ہوئے آپ ہمیشہ وہی کچھ لکھتے رہے گے جس کی وجہ سے آپ پر اور آپ کی صحافت پر کبھی انگلی نہ اٹھے میر صاحب مجھے قوی امید ہے اسی امید پر آپ کی تحریر پڑھنے کو دل کرتا ہے آپ سچ ہی لکھتے ہیں ورنہ عطاءالحق قاسمی اور جاوید چوہدری جیسے نامور کالم نگاروں کو بھی خدا حافظ کہہ چکے۔

آج 16 اپریل کو آپ کا کالم ” الٹی ہوگئیں سب تدبیریں ” پڑھا حیرت کیساتھ ساتھ دکھ بھی ہوا ٹویٹر پر آپ کو رپلائی بھی کیا مگر آپ ٹھہرے اونچے مقام و مرتبہ والے بدگمانی نہ ہو تو میرے کمنٹ کو شاید پڑھنا گوارا بھی نہ کیا ہوگا آپ کے کالم کے اختتام پر ایک نمبر درج تھا واٹس ایپ پر بھی آپ کو میسج کیا مگر شاید وہ میسج بھی آپ کے لئے فضول سا لگا ہوگا ویسے یہ حقیقت بھی ہے عوام الناس سے نہ سیاستدانوں کو کوئی مطلب ہے نہ کالم نگار و مصنفوں کے پاس وقت ہے کہ وہ عام لوگوں سے مل کر کچھ ان کی رائے بھی لیں اور ان کی رائے کو اہمیت بھی دیں خیر یہ تو انسانی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ اونچائی کیطرف ہی دیکھتا ہے

میں خود آپ کو زحمت دینے کے لئے کھلا خط آپ کے نام لکھ رہا ہوں شاید کہ آپ تک پہنچ پائے شاید کہ آپ اس خط کو اہمیت دے کر جوابی خط ارسال کریں ویسے بادشاہوں کا یہ وطیرہ نہیں کہ وہ عوام الناس کی باتوں کو اہمیت دیتے پھریں ان کے لیے وزراء و مشیر کی اتنی تعداد ہوتی ہے کہ وہ عام لوگوں کی باتوں کو فضول سمجھنے لگتے ہیں دل کی تسلی کے لئے یہ خط لکھا رہا ہوں آپ چاہیں تو میرے خط کو اہمیت دیتے ہوئے میری الجھن دور کرنے کے لئے جوابا خط کی چند سطور تحریر کرنے کی زحمت کریں اور اگر چاہیں تو کسی ڈسٹ بین میں پڑھے بغیر پھینک دیں۔

٭٭٭  ٭٭٭

محترم حامد میر صاحب آپ کے آج کے کالم سے مجھے اختلاف ہے اختلاف نفرت کے سبب نہیں الجھن کی وجہ سے ہے اسی اختلاف کی بنیاد پر آپ سے کچھ سوالات پوچھنے کے لئے خط لکھ رہا ہوں۔

سب سے پہلا سوال آئینی شق باسٹھ ون ایف کے حوالے سے ہے آپ نے لکھا میں اس شق کے حق میں تھا اور نہ ہوں مگر میری بات نہیں سنی گئی اور آج سیاستدان مشکلات میں ہیں میر صاحب کیا آپ کی نظر میں کوئی بھی ایسا شخص ملک میں نہیں پایا جاتا جو آئین کی اس شق پر پورا اتر سکے یا کسی کا اترنا ممکن ہی نہیں؟ اور جو سیاستدان اس وقت پورے ملک میں سیاست کر رہے ہیں آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ میں مسمی حامد میر پاکستانی عوام سے کہتا ہوں کہ 2018 کے الیکشن میں اپنا ووٹ فلاں سیاستدان کو دیں میں اس بات کا ضامن ہوں کہ یہی وہ سیاستدان ہے جو ملک کے تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پاکستان کیساتھ مخلص بھی ہے اگر آپ ایسا کہہ دیں تو آنے والے الیکشن میں میں اپنا ووٹ اُسی سیاستدان کو دونگا مگر دل پر ہاتھ رکھ کر بتانا؟

دوسرا سوال شہباز شریف کے حوالے سے ہے ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد کے حکم پر آپ نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ شہباز شریف کو سزا ہوسکتی ہے جبکہ ہمیں تو یقین ہے کہ شہباز شریف کو سزا ضرور ہوگی اگر سزا نہ ہوئی تو عوام سمجھے گے کہ عدالتوں نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے مگر آپ کو فکر کھائے جارہی ہے کہیں شہباز شریف کو بھی نا اہل قرار دے کر اس کی سیاست کا دروازہ بھی بند نہ کیا جائے حامد میر صاحب آپ کے خدشات اپنی جگہ درست مگر آپ ماڈل ٹاؤن میں بے دردی سے ہونے والے قتل کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں گے جس میں صنفِ نازک کے منہ میں گولیاں ماریں گئیں اور اس کی چھوٹی بچی کے سامنے تڑپتے ہوئے مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا کیا اس کا ذمہ دار کوئی نہیں

کیا اس چھوٹی بچی پہ جو گزری آپ نے کبھی اپنے قلم کو جنش دی اور غیر جانبدارانہ انداز میں ہی لکھتے کہ اتنے لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنا ظلم کی تاریک شب کا نوحہ ہے یا آپ اسے ظلم سمجھتے ہی نہیں چلیں مان لیا کہ شہباز شریف کا کوئی قصور نہیں مگر ظالمانہ قتل کا کوئی تو ذمہ دار ہوگا یہ تو ممکن ہی نہیں کہ قتل بھی ہو اور کوئی قاتل بھی نہ ہو۔ محترم حامد میر صاحب کہیں آپ بلاوسطہ ظالم اور ظلم کا ساتھ تو نہیں دے رہے کہیں آپ یہ تو نہیں چاہتے کہ سیاست میں نئے چہرے آنے کی بجائے وہی پرانا گند ہی باریاں بٹورتا رہے مجھے آپ کے جوابی خط کا شدت سے انتظار رہے گا ہر قسم کی تلخی کے لئے معذرت۔

آپ کا قاری: محمد امین مگسی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).