منہ پھیر ‌کر گزر جانے کا وقت کٹھوعہ مندر ریپ کے بعد تو بالکل نہیں رہا


نربھیا کے ریپ کے بعد دہلی میں ایک بے مثال سناٹا پسر گیا تھا۔ مجھے یاد ہے۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے قتل عام کے وقت پھیلی ملک گیر دہشت بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ آج ویسی دہشت نہیں ہے۔ یہ چیزیں تو ہوتی ہی ہیں، کہیں اور ہوتی ہوں‌ گی، کسی اور کے ساتھ ہوتی ہوں‌ گی، ہمیں کیا۔ ایئر پورٹ پر کسی قومی بحران جیسا کوئی احساس نہیں تھا۔ اگر آپ کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ آپ ہوائی جہاز میں سفر کر سکتے ہیں، اگر آپ دلت یا مسلمان نہیں ہیں تو آپ ہمیشہ ایک بلیٹ پروف ایئرکنڈیشنڈ ڈھکن یا خول میں رہ سکتے ہیں۔ اور جن کے پاس یہ ڈھکن نہیں ہے وہ؟

میں حیدر آباد میں ایک مسلم اکثریتی اسکول میں پڑھی ہوں۔ لہذا میرے بچپن کی زیادہ تر سہیلیاں مسلمان تھیں۔ اس عمر میں مجھے اپنے اقلیتی ہندوپن کا کوئی علم ہی نہیں تھا۔ نہ ہی میرے دوستوں کو ان کے مسلم ہونے کا کوئی پتا تھا۔ مجھے کچھ کچھ احساس ہے کہ آج میری وہ سہیلیاں اور دوست کہاں ہیں؛ خاموش، سمٹے بیٹھے ہوں‌ گے کہیں۔ آج وہ حاشیے کے پرے ڈھکیل دیا محسوس‌کر رہے ہیں۔ وہ پیچھا کرتے کتوں کے گروہ میں گھرا اور خوف زدہ محسوس کرتے ہوں‌ گے۔ یہ ملک وہ نہیں رہا جہاں ہم ساتھ ساتھ پلے بڑھے تھے۔ جہاں سیکولرزم کا سبق ہمیں لازمی طور پر سکھا دیا جاتا تھا۔

سیاستدانوں کا بکاؤپن، ان سے ناامیدی ایک عام، اور روزمرہ کی بات تھی۔ دنیا کے ہمارے حصے میں یہ سیاست کی شکل و صورت کا ایک ایسا پہلو تھا جس کی پروا کرنا ضروری نہیں تھا۔ پھر بھی یہ ایک ایسا ملک تھا جہاں ماں باپ آپ کو اخلاقیات اور مہمان نوازی سکھانے کی زیادہ پروا کرتے تھے، صرف زندہ رہنے کا فن سکھانا ہی سب کچھ نہیں تھا۔ مگر مجرموں کے گروہ کے ذریعے چلائے جا رہے اس ملک میں زندہ رہنے کی جدو جہد میں مبتلا ایک عام شہری کے طور پر آپ کیا کر سکتے ہیں؟

ایسا گروہ جس کا پھیلاؤ شاید کسی کی بھی پہنچ اور دائرے سے باہر ہے۔ اعتماد کے ساتھ کھیلنے میں اتنا مہلک گروہ کہ کروڑوں لوگ اس کے ہر جھوٹ پر آنکھ موند‌ کر یقین کر لیتے ہیں۔ اس وقت آپ کیا کر سکتے ہیں جب آپ اپنے محافظ کو ہی اپنے قاتل میں تبدیل ہوتے دیکھ رہے ہیں؟ اور ایک تنہا قلم نویس کے طور پر تو آپ کیا ہی کر سکتے ہیں؟ جنگ کے دور میں ہر فرد سپاہی نہیں ہوتا۔ نہ ہی آج کی طرح ہر شخص کوئی وکیل یا ایکٹوسٹ ہو سکتا ہے۔ ہمیں معماروں کی بھی ضرورت ہے، نل ساز کی بھی، اساتذہ کی بھی اور ڈاکٹروں کی بھی۔ ہمیں مکان بھی بنانے ہیں۔ بچوں کو بھی پڑھانا ہے۔ رستے نلوں کو بھی صحیح کرنا ہے۔

لمبے وقت تک میں اپنے آپ کو یہ سمجھاتی رہی کہ میری سب سے بڑی اچھائی اسی میں ہے کہ میں اپنا کام اچھی طرح کرتی رہوں۔ کیا میرا ایسا سوچنا ایک سچ تھا یا یہ اس طریقے سے جیتے چلے جانے کی اپنی چاہ کو جائز ٹھہرانے کا ایک طریقہ بھر تھا جس طریقے سے میں جیتی چلی آئی ہوں؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ دوسرے قلمکار بھی کم وبیش یہی کہہ رہے ہیں؛ لکھنے والے کا کام ہے کتابیں لکھنا، لوگوں کو سوچنے کے لئے خوراک دینا جس سے پڑھنے والوں کی دنیا بدل جائے بھلے وہ صرف ان کچھ دنوں کے لئے بدلے جن دنوں وہ اس کتاب کو پڑھ رہے ہیں۔

قلمکار کھوجی صحافی نہیں ہوا کرتے۔ اور ایک ناول نویس کے لئے تو روزانہ، لمحاتی واقعات پر کوئی رد عمل دینا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ لیونی لشریور کہتی ہیں، ‘ ایک ناولسٹ کے لئے کسی متحرک نشانے پر اپنی کہانی بننا بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ ‘ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ ناولسٹوں کو تب زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جب وہ سیاسی سُر والے ناول لکھتے ہوں۔

ان کو ہمیشہ ہی ادبی ایکٹوسٹ ہونے کا بوجھ ڈھونا پڑتا ہے۔ اس طرح کے ایک ملک میں کوئی مضمون نگار بھلا اور کسی بھی طریقے سے بامعنی رہ بھی کیسے سکتا ہے؟ جب آپ کا گھر دھڑ دھڑ جل رہا ہو، کیا اس وقت آپ ایک بےداغ پیراگراف لکھ سکتی ہیں؟ میں ایک چھوٹے سے پہاڑی قصبہ میں رہتی ہوں۔ وہاں نو سال کی ایک لڑکی انگریزی بولنا سیکھنے کے لئے میرے پاس آتی ہے۔ وہ گڈریا فیملی سے ہے۔ وہ ایک سرکاری اسکول میں جاتی ہے جہاں پڑھائی لکھائی کے نام پر اس کو زیادہ کچھ حاصل نہیں ہو پاتا ہے۔ بڑی ہو کر وہ ایکٹرس بننا چاہتی ہے۔ اسکول سے لوٹ ‌کر وہ شام کو اپنے مویشیوں کو واپس لانے کے لئے نکل پڑتی ہے۔ اپنی بید ہوا میں لہراتے ہوئے، اپنے کتوں کے سوا کسی بھی طرح کی حفاظت کے بغیر وہ گھنے جنگلات میں بڑھتی چلی جاتی ہے۔ کچھ دور تک میں بھی اس کے ساتھ جاتی ہوں۔ ہم دونوں باتیں کرتے ہیں۔ وہ رک رک‌ کر مگر انگریزی میں بات کرتی ہے۔ بیچ بیچ میں میں اس کے تلفظ اور قواعد کی غلطیوں پر اس کو ٹوک دیتی ہوں۔

ایک دوری تک ساتھ چلنے کے بعد میں لوٹ آتی ہوں۔ وہ اکیلی آگے بڑھ جاتی ہے۔ ہمارا قصبہ محفوظ ہے۔ میری اس ننھی سہیلی کو جنگلی جانوروں کے علاوہ کسی اور کا خوف نہیں ہے۔

انورادھا رائے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

انورادھا رائے

انورادھا رائے ناول نگار ہیں۔ ان کا چوتھا ناول ‘ آل دی لائیوز وی نیور لوڈ ‘ جون میں شائع ہونے والا ہے۔

anuradha-roy has 1 posts and counting.See all posts by anuradha-roy