ایم ایم اے، شیعہ ووٹ بنک اور کاٹھ کی ہنڈیا


سیاست کو ممکنات کا کھیل کہا جاتا ہے۔ تیسری دنیا کے ملکوں کی سیاست پر یہ بات اور زیادہ صادق آتی ہے۔ غیر منضبط سیاسی نظام اور مخصوص سیاسی حرکیات وہ عوامل ہیں جو ان ممالک کی سیاست کو جذباتی، جارحانہ اور غیر سنجیدہ سا بنا دیتے ہیں، ممکنات کا گیم بنا دیتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست بھی ہنوز بلوغت کی حد کو نہیں پہنچی۔ ہماری لغت میں سیاست کے معنی ایک دیرپا اور سنجیدہ عمل ہرگز نہیں۔ یہاں کے اہل نظر و صاحبان فکر کو بھی دشت سیاست سے کوئی علاقہ نہیں۔ لوگ اب بریکنگ نیوز کے چیختے چلاتے ٹکرز سے پھوٹتی سیاسی اقدار کے شیدائی بن چکے ہیں۔ پاکستان سمیت اس خطے کے کچھ ممالک میں مذہب کا سیاست میں کافی عمل دخل ہوتا ہے۔ بعض اوقات مذہبی تنظیموں اور شخصیات کا کردار حکومتیں بنانے یا بگاڑنے میں کلیدی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ پاکستان کے ایوان ہائے اقتدار سے لے کر پارلیمنٹ کے ایوان ہائے بالا و زیریں تک مذہبی سیاسی جماعتوں کے کردار کو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابی سیاست کی طرف نگاہ دوڑائی جائے تو مذہبی سیاسی جماعتوں کو مزید فعال و متحرک دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے والی یہ تنظیمیں انتخابات میں اپنا حصہ نکالنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگاتی ہیں۔

ملک میں عام انتخابات 2018 کی آمد آمد ہے۔ مختلف جماعتوں نے اپنے تُرپ کے پتے سیاسی بساط پر بچھانا شروع کیے ہیں۔ نئی سیاسی صف بندیاں بھی ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ متحدہ مجلس عمل کو بحال کیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر 5 جماعتوں کا اتحاد تشکیل دیا گیا ہے۔ ایم ایم اے کے تن مردہ میں دوبارہ جان ڈالنے کے عمل کو سیاسی پنڈت مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔ بعض واقفان حال کا ماننا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایم ایم اے کے تن مردہ میں روح پھونکی ہے۔ یہی سیاسی سکول آف تھاٹ پہلے بھی ایم ایم اے کو ”ملا ملٹری الائنس“ کہتا آیا ہے۔ سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں عمران خان کو کاونٹر کرنے کے لئے ایم ایم اے کو نشاۃ ثانیہ بخشی گئی۔ ان دونوں سازشی نظریات سے قطع نظر اس اظہاریے میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وقتی ضرورت کی کوکھ سے جنم لینے والے اس انتخابی اتحاد میں شامل جماعتوں میں سے کس کس کو کیا ملے گا؟ کس کی پانچوں انگلیاں ہوں گی گھی میں؟ اس اتحاد میں کوئی ایسی جماعت بھی ہے جس کے ہاتھ کچھ نہیں لگنے والا؟

جمیعت علمائے اسلام اس انتخابی اتحاد میں شامل کلیدی جماعت ہے۔ بحال شدہ انتخابی الائنس کا سربراہ جمیعت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان کو چُنا گیا ہے۔ اسی جماعت کا انتخابی نشان کتاب ہی ایم ایم اے کا نشان ہو گا۔ یہ بات خوب یاد رکھنے کی ہے جب 2002 میں ایم ایم اے کا قیام عمل میں لایا گیا تو صدارت جماعت اسلامی کے حصے میں آئی تھی۔ قاضی حسین احمد مرحوم صدر نشین ٹھہرے تھے۔ مگر اس بار شاید سراج الحق کو مذہبی جماعتوں کی سیاسی امامت کا اہل نہیں سمجھا گیا۔ جمیعت علمائے اسلام کے ووٹرز کے لئے ایم ایم اے کو ووٹ دینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہو گی، ٹھپہ انہوں نے کتاب پہ ہی لگانا ہے۔ سیٹ ایڈجیسمنٹ کے نتیجے میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کئی حلقوں میں جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں کے ووٹ بھی جے یو آئی کے امیدواروں کو پڑیں گے، یوں جن حلقوں میں مولانا فضل الرحمان کے امیدوار ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے کھڑے ہوں گے ان کی پوزیشن مضبوط ہو گی۔ مولانا فضل الرحمان نے 2002 میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم کا خوب استعمال کیا تھا، خیبر پختونخوا (اس وقت کا صوبہ سرحد) میں اپنے عزیز اکرم خان درانی کو وزیر اعلی بنایا۔ خود قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ سوال یہ ہے جماعت اسلامی اور دیگر حلیف جماعتوں کے حصے میں کیا آیا؟ مشرف کی بدنام زمانہ سترہویں ترمیم کی منظوری کا ملبہ، مشرف کو باوردی صدر رہنے کا جواز فراہم کرنے کی ذمہ داری، دیگرکئی طرح کی سیاسی بد نامیاں۔ قاضی حسین احمد یہی پشیمانی ذہن میں لئے آسودہ خاک ہو گئے۔

ایم ایم اے میں شامل دوسری اہم پارٹی جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی اپنی تنظیمی نظم و ضبط اور پارٹی کے اندر جمہوری اقدار میں اپنی مثال آپ ہے۔ ایک نظریاتی جماعت بھی ہے۔ تاہم انتخابی سیاست اور جماعت اسلامی کا ازل سے بیر رہا ہے۔ اپنی تمام تر انتظامی فعالیت اور کارکنوں کے جوش و جذبے کے باوجود ہر الیکشن میں اس کو منہ کی کھانی پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی انتخابی موسم شروع ہوتے ہی کسی سیاسی اتحاد کے شجر پر آشیانہ تلاش کرتی ہے۔ گزشتہ 10 عام انتخابات میں سے جماعت اسلامی نے دو ہی الیکشن اپنے زور بازو پہ لڑے، دونوں ہی دفعہ شکست فاش مقدر بنی۔ 1977 کے انتخابات میں نظام مصطفی کا نعرہ بلند کیا، سات جماعتی اتحاد میں سیاسی پناہ ڈھونڈی، ترازو چھوڑ کے ہل کو انتخابی نشان بنایا۔ 1985 کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ 1988 اور 1990 کے انتخابات اسٹیبلیشمنٹ کی چھتری تلے آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) کے پلیٹ فارم سے لڑے گئے۔

1993 میں قاضی حسین احمد نے پاکستان اسلامی اتحاد کے نام سے چند جماعتوں کا اتحاد کیا۔ 2002 میں جماعت اسلامی مولانا فضل الرحمان کا بغل بچہ بن گئی۔ ایم ایم اے کا حصہ بنی۔ 2008 میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ 2013میں جماعت اسلامی نے تنہا پرواز کی۔ جب بیلٹ بوکس کھلے تو یہ حقیقت بھی کھلی کہ اس کے بیشتر امیدوار ضمانتیں ضبط کروا بیٹھے ہیں۔ 272 میں سے قومی اسمبلی کی 2 سیٹوں پر اس کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ یہی وجہ ہے جماعت اسلامی ایم ایم اے کی بحالی کے لئے سب سے زیادہ بے چین و بے تاب تھی۔ انتخابی سیاست کی ولن کا درجہ رکھنے والی جماعت کے سامنے 2018 کے انتخابات کا نقشہ اور ممکنہ نتیجہ دونوں موجود ہیں۔ لھذا اس نے مولانا فضل الرحمان کی سیاسی امامت میں ہی عافیت جانی۔ مزے کی بات یہ ہے خیبر پختونخوا میں پانچ سال تک حکومت کا حصہ رہنے والی جماعت کے اکابرین الیکشن مہم میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کھڑے ہو کر اسی صوبے کی حکومت کی کارکردگی کو مطعون کریں گے۔ بالفرض خیبر پختونخوا میں ایم ایم اے میدان مار لیتی ہے تو زمام حکومت تو جے یو آئی کے ہاتھ میں جائے گا۔ جماعت اسلامی کو کیا ملے گا؟ اس کا جواب خود امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے پاس نہیں تو ہم کیا دیں گے؟

متحدہ مجلس عمل میں شامل ساجد میر کی جماعت اہل حدیث کی کوئی انتخابی پہچان نہیں۔ ساجد میر کو سینیٹر بننا ہوتا ہے، اس مقصد کے لئے وہ کسی بھی اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں۔ جمیعت علمائے پاکستان کا کوئی سیاسی قد کاٹ نہیں۔ سو یہ جماعت یہاں قابل بحث نہیں۔

باقی بچے علامہ ساجد علی نقوی۔ یہ ایم ایم اے کا سب سے دلچسپ مگر عجیب پہلو ہے۔ اسلامی تحریک (کالعدم تحریک جعفریہ) کا متحدہ مجلس عمل میں کیا کام؟ یہ وہ سوال ہے جو سیاسی تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں کے لئے مخمصے سے کم نہیں۔ ایم ایم اے خالصتا ایک انتخابی الائنس ہے۔ اس اتحاد کا ہدف حصول اقتدار اور سیاسی فائدے کے سوا کچھ نہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ایم ایم اے نے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے کا کوئی پروگرام دیا ہو، یا بِنا مسلکی تعصبات کے تمام فرقوں کی حکومت میں نمائندگی کا ایجنڈا دیا ہو۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ پھر ساجد علی نقوی کی اسلامی تحریک کو جے یو آئی اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں سے کیا علاقہ؟ یہ بات یاد رہے 2002 میں بھی تحریک جعفریہ ایم ایم اے کا حصہ تھی۔ اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے پورے ملک سے کسی ایک قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست پر شیعہ امیدوار کھڑا نہیں کیا گیا۔ تحریک جعفریہ کا ووٹ بنک ایم ایم اے کے کھاتے میں گیا۔ اقتدارکے مزے اکرم درانی اینڈ کمپنی نے لوٹے۔ شیعہ ووٹرز کے منتخب ایم این ایز اور ایم پی ایز متحدہ مجلس عمل کے نمائندے کے طور پر اسمبلیوں میں تو موجود تھے مگر ان کی پورے پانچ سالوں میں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

اس بار بھی صورت حال کم و بیش وہی ہے۔ خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو پشاور سے لے کر مالا کنڈ تک کوئی ایسا حلقہ انتخاب نظر نہیں آتا جو مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی علامہ ساجد نقوی کے امیدواروں کے لئے چھوڑ دیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل تشیع کا معقول ووٹ بنک موجود ہے، مگر مولانا فضل الرحمان اپنے اس آبائی حلقے کو ساجد نقوی کی محبت میں قربان کر دیں گے؟ دہلی ہنوز دور است۔ کوہاٹ اور ہنگو میں بھی اول الذکر دونوں جماعتیں تحریک جعفریہ (اسلامی تحریک) کو جھنڈے گاڑنے نہیں دیں گی۔ بلوچستان میں انتخابی پلاٹ اس طرح بنتا نظر آتا ہے کہ کوئٹہ سے ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے پر ساجد علی نقوی کو کتاب مل سکتی ہے۔ باقی 60 کے قریب صوبائی جبکہ 17 قومی اسمبلی کے حلقوں میں اسلامی تحریک پاکستان کا کام محض ووٹروں کو الیکشن کے دن پولنگ سٹیشنوں پر پہنچانا ہو گا۔ کراچی کا منظر نامہ بھی ایم ایم اے میں شامل شیعہ مسلکی جماعت کے لئے سازگار نہیں ہو گا۔ جماعت اسلامی اپنی تنظیمی قوت کے بل بوتے پر زیادہ حلقوں میں اپنے امیدوار اتارے گی۔ 21 قومی اور42 صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں سے شاید ایک یا دو صوبائی نشستوں پر اسلامی تحریک کو ٹکٹ ملے۔ اندرون سندھ اور پنجاب میں ایم ایم اے خانہ پُری کے لئے الیکشن لڑے گی۔ گمان غالب ہے ان حلقوں سے کچھ امیدوار میدان میں اتارے جائیں تاکہ ایم ایم اے میں شامل تحریک اسلامی بھی کسی گنتی میں آجائے۔

لہذا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تحریک جعفریہ کی ایم ایم اے میں شمولیت سے شیعہ کمیونٹی کو سیاسی طور پر کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ پشاور، کوہاٹ، ہنگو، ڈی آئی خان اور کراچی کے شیعہ ووٹ جے یو آئی اور جماعت اسلامی کی جھولی میں جائیں گے۔ لیکن اسمبلیوں میں عملا ان کی نمائندگی نہیں ہو گی۔ خیبر پختونخوا سے ایم ایم اے صوبائی اسمبلی کی معقول تعداد میں نشستیں نکالنے میں کامیاب رہی تو شاید علامہ ساجد علی نقوی کو سینیٹ کی سیٹ مل جائے۔ مگر ان کی رہبری پر کل بھی سوالیہ نشان تھا۔ آنے والے کل بھی سوالیہ نشان رہے گا۔
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen