آلویز شرمندہ


\"muhammad-adil2\"

کسی نے پوچھا کہ ’آپ شرمندہ کیوں ہیں‘ تو ایک دوست نے کہہ ڈالا ’شرمندہ تو ہم ہیں‘ اور اِس کے بعد ہم سب پہ شرمندگیوں کی تکرار ہی شروع ہوگئی (یہاں ہم سب سے مراد ہم سب بھی ہیں اور ہم سب ڈاٹ کام بھی)۔ کسی نے آواز لگائی ’ہاں ہم شرمندہ ہیں‘ تو کوئی بولا ’ہم کیوں شرمندہ ہیں‘ تو کسی نے برجستگی سے کہا ’جاؤ ہم نہیں ہوتے شرمندہ‘۔ ان شرمندگیوں کے اوزان پہ بات کی گئی تو پتا چلا کے یہ تو ’شرمندگیوں کے جھوٹے پیمانے‘ ہیں۔ ہم نے ازراہِ مذاق کہہ دیا بھئی شرمندگی باعثِ پریشانی ہوتی ہے تو تڑ سے کسی نےجواب داغ دیا، ’خدارا، ہمیں پریشان رہ لینے دیجئے‘، اور ہم اپنا سا منہ لے کر خاموش ہو گئے۔

ہائے ہائے! دنیا کے کسی عظیم فلسفی نے کبھی کیا خوب کہا تھا کہ ’عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔‘ اس فلسفیانہ سوچ کو تقویت دی ساس بہو کے مسائل اجاگر کرتی شہرہ آفاق ڈرامہ سیریلز ’کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘، ’کہانئی گھر گھر کی‘ اور ان جیسے لاتعداد ڈراموں نے جس میں ہیرو بھی عورت اور ولن بھی عورت۔ بنیادی مسئلہ جائیداد یا بیٹے کے لیئے ساس بہو میں چھینا جھپٹی۔ ان ڈراموں پہ جب اعتراض اٹھایا گیا تو جواب ملا کہ یہ ڈرامے خاندانوں کے اندرونی خلفشار پہ مبنی ہیں، جن پہ آج سے پہلے بات نہیں کی گئ۔ لیکن آج میڈیا آزاد ہے اس لیئے ان گھریلو سازشوں سے پردہ چاک کیا جارہا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ کیسے خونی رشتے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں۔

لیکن واللہ کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ بات ڈراموں سے بڑھ کر اشتہاروں تک پہنچ جائے گی اور مسائل خونی رشتوں کی بجائے مخصوص خون تک پہنچ جائیں گے۔ سیلف فنانسز بنیادوں پہ چلنے والی یونیورسٹیز کی حساس ’ممی ڈیڈی‘ طالبات کو احساس ہوگا کہ بھئی سینٹری نیپکن خاکی لفافوں میں کیوں بکتے ہیں؟ یہ کوئی پردوں کا کپڑا تو نہیں کہ لفافوں میں قید کر کے رکھا جائے۔ یا تو ہم انہیں کھلے عام لے کر پھریں گے ورنہ گلابی لفافوں میں رکھیں گے بس خاکی لفافہ نا ہو۔

ہوسکتا اس احساس کے نتیجے میں چلنے والی کمپین کو کسی کمپنی نے سپورٹ کیا ہو، اور یہ سپورٹ کم از کم دیواروں پہ چپکائے جانے والے نیپکنز سے لے کر فریش گریجویٹس کی نوکریوں تک کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے۔ اس کمپین کا مقصد خواتین کی اس روٹین اور اس سے متعلقہ پیچیدگیوں سے ان لوگوں کو روشناس کروانا ہے جو ان کے بارے میں نہیں جانتے۔ خاص طور پہ لوِئر مڈل کلاس یا دیہات وغیرہ سے تعلق رکھنے والی آبادی اس کمپین کی ٹارگٹ آڈینس ہوسکتی ہے۔ بڑی اچھی بات ہے ضرور روشناس کروائیں۔ پرسنل ہائی جین کا ادراک ہونا اور ان سے متعلقہ پراڈکٹس کے بارے میں روشناس ہونا سب کا حق ہے۔

جہاں غربت کا یہ عالم ہو کہ ایک وقت کا کھانا بمشکل نصیب ہو اور اگلے وقت کے لیئے امید پہ دنیا قائم؛ وہیں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک خاتون ہاتھ میں سینٹری نیپکنز کا پیکٹ تھامے بس سٹاپ پہ کھڑی تھیں کہ ایک فقیر آ دھمکا۔ حسب توقع بھیک مانگنے لگا۔ جب خاتون نے پیسے دینے سے انکار کردیا تو پیکٹ کی طرف اشارہ کرکے بولا، ’پیسے نہیں تو یہ ڈبل روٹی ہی دے دو۔‘ جس پہ خاتون نے شور مچایا کہ فقیر اسے چھیڑ رہا ہے اور اسے سرِراہ مار پڑوادی، بےچارہ مار کھاتا جاتا اور کہتا جاتا ’میں نے تو بس ڈبل روٹی ہی مانگی تھی‘۔ اب اس جاہل فقیر کو اگر اس پروڈکٹ کا علم ہوتا تو کیا وہ ایسا سوال کرتا۔ کیا اسے مار پڑتی؟ واقعی ان نیپکنز کی تشہیر میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔

ساس بہو ڈراموں پہ کبھی نا ختم ہونے والے ڈرامے بنانے والی پروڈکشن کمپنیز آج بہت بڑی بڑی بزنس ایمپائرز میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ ان میں سے خاص طور پہ ماضی کے معروف اداکار جیتندر کی صاحبزادی ایکتا کپور کی کمپنی تو نہایت کامیاب رہی۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ساس بہو کے اختلافات کم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ گھریلو ناچاقیوں اور طلاق کی شرح میں انتہائی ’خوش آئند‘ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح اس ’خونی‘ مسٰلہ کو جس طرح اچھالا جارہا ہے، اس سے خواتین کی شخصی آذادی پر تو شاید کوئی خاطر خواہ اثر پڑے نا پڑے، کوئی سرخ انقلاب آئے نا آئے نیپکنز بنانے والی کمپنیوں کی فروخت میں بیش بہا اضافہ متوقع ہے۔

کارپوریٹ سیکٹر کا ایک کامیاب ہتھیار لوگوں کے جذبات سے کھیل کر اپنی سیل بڑھانا ہے۔ یہ سیکٹر کبھی محنت کش درزن کے حالات دکھا کر جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے اپنا واشنگ پاؤڈر بیچے گا، اور کبھی سپرے چھڑکنے کے بعد مردوں کے پیچھے بھاگتی لڑکیاں دکھا کر آپ کو وہی سپرے خرید کر سنہرے خوابوں کی دنیا جا بسائے گا۔ کچھ عرصہ قبل کچھ معنی خیز اشتہارات کے ذریعے مردوں کو پرجوش انداز میں اپنی طرف راغب کیا گیا، اشتہار پہ تو پابندی لگ گئی لیکن کمپنی کا بزنس چل نکلا، یہی کچھ اب ہونے جارہا ہے سینیٹری نیپکن کاروبار کے ساتھ۔ شروع شروع کے اشتہارات میں ڈھکے چھپے انداز میں بات کرتے کرتے بعد کے اشتہاروں میں کھل کر بات کی جانے لگی۔ پھر ماڈلز سے جسم کے مخصوص حصوں کی طرف ایک خاص انداز میں دیکھ کر مطمئن یا پریشان ہونے کی اداکاری کروائی گئی۔ پچھلے چند ماہ سے ان اشتہاروں میں سکول کی بچیوں کو اشتہار کی زینت بنایا جارہا ہے۔

بحث ایک اچھا رجحان ہے۔ اؔن مسائل پہ نتیجہ خیز بحث وقت کی ضرورت ہوتی ہے جن کے حل سے عوام کا کچھ بھلا ہو، ان کی زندگیاں آسان ہوں۔ ایک وقت تھا مغل درباروں میں بھی کافی بحث و مباحثوں کا دور چلتا، ان بحثوں سے عوام کیا خواص کوبھی کچھ حاصل نا ہوا لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی اپنا کام کر گئی، اور ہاتھ رہ گئی شرمندگی۔ اب کہ اگر کسی کمپنی نے اپنا ہاتھ دکھایا تو پھر سب کہتے پھریں گے کہ کیا ہماری ہی قسمت میں ہے ’آلویز شرمندگی‘۔

محمد عادل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments