میں سندھی نہیں ہوں


دنیا، برِ اعظم، ملک، شہر گاؤں، محلوں میں بسنے والے، مختلف زبانیں بولنے والے، مذاہب میں جکڑے، فرقوں میں بٹے، ذات پات اور برادری میں قید، طبقات میں تقسیم، مختلف نظریا ت کے حامل لوگوں سے ہی اس جہان کا حسن ہے۔ انسان اپنے مزاج اور حالات کے مطابق سماجی راوبط میں ہم آہنگی کی بنیا د پر ایک دوسرے کے قریب آتا ہے، خونی رشتوں اور دوستی کے بندھن کو فطری تقاضوں کے مطابق مضبوط کرتا ہے۔ اس کے مزاج اور دل سے قریب لوگ اس کی ہمدریوں کے فطری طور پر مستحق قرار پاتے ہیں۔ اگر دنیا کے تمام انسان، اپنے خاندان کا سب سے پہلے اور اس کے بعد اپنے محلے پھر اپنے فرقے، ہم زبان اورہم مذہب کا خیال ترجیحی بنیا دوں پر کریں تو دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہو جا ئے۔ بھا ئی چارے کی فضا میں امن و آشتی کی مہک دل ودماغ کو شاداب رکھتی ہے۔ جس کی بنا پر صلاحیتوں میں نکھا ر اور معا شرے میں خوش حالی آتی ہے۔

سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں ہندستان سے ہجرت کرنے، اور اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد آباد ہے۔ اس کی وجہ سندھیوں کی بے مثال مہمان نوازی اور دریا دلی ہے۔ میرے دادا نے ہندستان سے ہجرت کر کے لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ میرے والد گورنمنٹ آفیسر تھے ان کے سندھ کے مختلف شہروں میں تبادلے ہو تے رہتے تھے اس لیے سندھ بھر کے لوگوں کو جاننے کا موقع ملا۔ 1973 کے بعد، اردو بولنے والے پتہ نہیں کس وجہ سے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے۔ اس میں کچھ ہاتھ نادیدہ قوتوں کے پروپیگنڈے کا بھی تھا۔

مجھے اور میرے خاندان کے کسی فرد کو کبھی سندھ میں عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوا۔ ہمارے پڑوسی، دوست احباب، نوکر چاکر سب ہی سندھی تھے۔ اور سب ہی ہم سے بڑی محبت اور عزت سے پیش آتے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ اردو بولنے والے ان سے ڈرنے لگے اور 1980 کے بعد سے اردو بولنے والوں کی کراچی میں منتقلی میں تیزی آگئی۔ اس دوران میرے والد کا خیر پور ٹرانسفر ہو گیا۔ اور پھر ان کی وفات اور آج تک میرے گھر والے وہیں آباد ہیں۔ مجھ سمیت سارے گھر والے اپنے آپ کو فخر سے سندھی کہتے ہیں۔ 1988 میں بھی لسّانی فسادات کو ایک بار پھر ہوا دی گئی لیکن ہمارے قدم نہ ڈگمگائے۔ ہم نے ایم کیو ایم کے عروج اور لسّانی فسادات کے دوران بھی ہمیشہ سندھی امید واروں کو ہی پر جوش انداز سے کھلم کھلا ووٹ دیا جب کہ وہاں ایم کیو ایم کو کامیاب کرانے کے لیے منظم کوششیں جاری تھیں اور ہمیں اردو بولنے والوں کی جانب سے اکثر غداری کو طعنہ بھی ملا کرتا۔

میرے والد اور والدہ بہت اچھی سندھی بولتے تھے۔ سندھیوں سے سندھی میں بات کرنے کی سختی سے تاکید کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم سب بہن بھائی بہت اچھی سندھی بولنے پڑھنے اور لکھنے لگے۔ یوں سندھی زبان اور یہاں کی خاک ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے۔ سندھیوں کا اخلاق، مہمان نوازی، سرشاری، وسیع النظری، اور کسی بھی ماحول میں ڈھل جانے کی فطری صلاحیت قابلِ رشک ہے۔ یہاں کے رہنے والے تبدیلی کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں۔ اپنی رائے کے اظہار میں بے با ک ہوتے ہیں۔ یہ خوش حالی اور اپنی زندگی میں بہتری کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

یہ خواتین کے معاملے میں مثالی وسیع ذہن رکھتے ہیں، انہیں ان کی صلاحیتوں کے استعمال سے ناصرف روکتے نہیں بلکہ انہیں آگے بڑھنے کی ہمت دیتے ہیں، مسند اقتدار، ایوانِ زیریں، صوبائی اسمبلی اور اعلیٰ عہدوں پر خواتین پوری شان سے اور دگر صوبوں کے مقابلے میں کثیر تعداد میں اپنے عہدوں براجمان ہوتی ہیں۔ سیاست میں خواتین کی نمایاں اکثریت سندھ سے دکھا ئی دیتی ہے۔ سندھی تبدیلی پسند کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب سے بھی جڑے رہنا پسند کرتے ہیں۔ کسی بھی طرح یہ اپنے معاشی حالات بدلنے کے خواہاں رہتے ہیں۔ ان کے مزاج میں سچل کی سر مستی بھٹائی کی انکساری اور لعل شہباز کی قلندرانہ شان رچی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی سندھیوں کے مزاج کا حصہ نہیں۔

ان خصوصیات کی بنا ء پر مجھے سندھ کا باسی ہونے پر خوشی ہے، لیکن میرے احساسات اور جذبات سے فخر اور سندھی ہونے کا غرور چھین لیا گیا۔ جب لاڑکانہ میں ایک ایک مقامی گلوکارہ پر نوٹوں کی بارش کی جا رہی تھی، اسے مجبور کیا جا رہا تھا، کہ وہ کھڑے ہو کر گانا گا ئے۔ اور وہ موقع کی نزاکت محسوس کر کے کھڑی بھی ہو گئی لیکن کھڑی نہ رہ سکی۔ ایک گولی اس کے دل میں جا لگی۔ مگر میرے دل میں پھنسی گولی جانے کب نکلے گی۔ اس گولی نے مجھ سے سندھی ہو نے کا مان چھین لیا۔ میری مذکورہ تمام باتوں کو غلط ثابت کر دیا۔ میں کیسے سمجھ لوں کہ سندھی تبدیل ہوگئے ہیں انہوں نے صرف اپنا چولا بدلا ہے قدیم جا ہلانہ روایات باقی صوبوں کے باسیوں کی طرح اب بھی ان کی ذات سے چمٹی ہو ئی ہیں۔ وہ خواتین کو محفل کی زینت تو بنا دیتے ہیں لیکن اپنی ذہنیت نہیں بدلتے۔ ثمینہ سندھو کو اسی ذہنیت نے قتل کیا ہے۔

میں ایسی مہمان نوازی اور دوسری قوموں پر اپنے اخلاق کی دھاک بٹھانے والے سندھیوں کی اس ادا پر ہر گز قربان نہیں ہو سکتی، جو ان سے ان کے اپنوں کی زندگی چھین لے۔ اگر آپ کے اپنے، آپ کی جاہلانہ سوچ، اور پیسے نچھاور کرنے والی قدیم رسم اور نفس کی غلامی سے محفوظ نہیں تو میں آپ کی غیر قوموں پر خوش اخلاقی اور دریا دلی کی دھاک بٹھانے کو منافقت سے ہی تعبیر کروں گی۔ آپ اپنی آسائشوں میں غیروں کو ضرور شامل کیجیے لیکن اپنوں میں بانٹتے وقت آنکھیں بند کر لیجیے۔ دوسروں کے جان ومال کا تحفظ، اپنوں کے حفاظتی مورچے اکھا ڑ کر نہ کیجیے۔ اگر دنیا کے تمام لوگ ” سب سے پہلے اپنے ‘‘ کے خیال کو اولیت دیں گے تو فطرت کی مہربانیاں سب پر یکساں نزول ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).