پرائیویٹ سکول کی لوٹ مار کا نیا طریقہ


تین سال قبل کچھ خاندانی مسائل کی بنا پر سکول کو جاری رکھنا ممکن نا رہا اور بند کرنا پڑا۔ ایک ایسا ادارہ جو کم فیس میں بہت اچھا معیار تعلیم فراہم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جس کی خاصیت بچوں کی ابتدائی تعلیم وتربیت اور base اچھی بنانا تھا۔ پلے گروپ سے پانچویں جماعت تک یہ ایک بہترین تعلیمی ادارہ تھا۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سکول کے جن بچوں نے کسی بھی بڑے سکولوں میں داخلہ ٹیسٹ دیا تو میرٹ پر ٹاپ پوزیشنز پہ آئے۔ ہمارے ہاں عام تاثر ہے کہ سکول مالکان اپنے بچوں کو اپنے ذاتی سکولوں میں نہیں پڑھاتے ظاہر ہے اپنے ادارے پر ہی اعتماد نہیں ہوتا اس کے برعکس ہم نے پلے گروپ سے پانچویں تک اپنے بچوں کو اپنے سکول میں پڑھایا یعنی اپنے بچوں کی base اپنے سکول میں بنائی اور چھٹی جماعت میں بڑے سکول میں داخل کروا دیا۔ بچے ہمیشہ ٹاپرز میں رہے۔ بڑی بیٹی آٹھویں جماعت میں سکول کی طرف سے آذربائیجان میں ایک انٹرنیشنل مقابلے میں شرکت کے لئے گئی جس میں دنیا بھر کے 45 ممالک کے بچوں کے درمیان مقابلہ تھا اور اتنے بڑے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک عام سے سکول کی کہانی ہے۔

جب اس سکول کو بند کرنے کا ارادہ کیا تو کئی ماہ پہلے ہی اس پر کام شروع کر دیا گیا۔ باقاعدہ طور پر والدین کو مطلع کر کے سیکیورٹی کی مد میں واجبات وغیرہ ادا کر کے باعزت طریقے سے بند کیا گیا لیکن اس ادارے کو بند کرنے کے دوران بڑے اہم چشم کشا انکشافات سامنے آئے۔ کیونکہ ایک ایسا سکول بند ہونے کی خبر سن کے جس کی ساکھ بہت اچھی تھی علاقے میں پرائیویٹ سکول مافیا سرگرم ہو چکا تھا۔ بہت سے لوگ سکول کا نام یا بچے خریدنے کی آفر لے کے ہمارے پاس آئے۔ ان میں سے ایک با ریش متقی پرہیز گار ٹائپ درمیانی عمر کے صاحب بھی تھے جو بضد تھے کہ ہم اپنے سکول کے بچے ان کو بیچ دیں۔ دام بھی اچھے لگا رہے تھے اور لوگوں کو کس طرح دھوکہ دینا ہے تا کہ کوئی بچہ بھی سکول چھوڑ کر نا جا پائے، بہت نادر مشورے دے رہے تھے کہ ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی ہی رہ گئیں۔

انہوں نے اپنے بزنس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ قریب کے ایک علاقے میں انہوں نے پانچ مختلف لیکن مشہور سکولز کی فرنچائیز کھول رکھی ہیں۔ اس طرح اس علاقے کا بچہ خواہ کسی بھی برانڈ کے سکول میں پڑھے وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ہمارے ہی سکول میں جاتا ہے۔ یہ بھی ایک قبضہ مافیا ہے ان کے بھی علاقے ہیں جو ان لوگوں نے بانٹ رکھے ہیں۔ والدین سے رقم بٹورتے ہیں لیکن ٹیچرز کو نا جائز حد تک کم pay کرتے ہیں۔ معیار تعلیم کچھ بھی نہیں لیکن پالیسی کے تحت رزلٹ بہت اچھا دیتے ہیں تاکہ والدین کو دھوکہ دیا جا سکے۔ بہر حال ہم نے ان سے اور ان جیسے کئیوں سے جان چھڑائی اور ان کی برانڈ کلیکشن میں اپنے برانڈ کا اضافہ کرنے کی بجائے بند کرنے پر اکتفا کیا کیونکہ اس ادارے کو ہم نے اپنے بچے کی طرح پروان چڑھایا تھا اس لیے اسے کسی مافیا کے ہاتھ بیچنے کی ضمیر نے اجازت نہیں دی۔

یہ تو تذکرہ تھا چھوٹے مافیا کا۔ اب ہم بات کرتے ہیں بڑے مافیا کی۔ بڑے اور مہنگے تعلیمی ادارے بڑے مافیا چلاتے ہیں۔ زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کی غرض سے اپنی استطاعت سے بڑھ کر بہترین تعلیمی اداروں میں بھیجنا چاہتے ہیں جو ان کا حق ہے۔ لیکن بڑے سکول ان کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ جو والدین کی جائز خواہش کے جرم میں ان کا خون تک چوس لینا چاہتے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے باقاعدہ کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے والدین کا استحصال معمول بن گیا ہے لیکن شنوائی کہیں نہیں ہے۔ او لیول 2 سال میں آسانی سے ہو سکتا ہے۔ چند سیمی پرائیویٹ سکول 2 سال میں کروا بھی رہے ہیں اسی طرح جیسے آٹھویں میں ہی میٹرک کا سلیبس شروع کروا دیا جاتا ہے اسی طرح آٹھویں سے ہی او لیول کا سلیبس پڑھانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سکول مافیا بچوں کا ایک سال اضافی لگوا کر او لیول تین سال میں کرواتے ہیں اور ایک سال کی اضافی فیس وصول کرتے ہیں۔ ہمیں بھی یہ عقل تیسرے بچے کی بار آئی اور اس کی آٹھویں کلاس سکپ کروا کر ڈائریکٹ او لیول میں کروا دیا جس کا نقصان تو کوئی نہیں ہوا بلکہ فائدہ ہی ہوا ہے۔ یہ بات کرنے کا مقصد آگاہی دینا ہے کہ میں یہ مشورہ اپنے تجربہ کی بنا پر دے رہی ہوں جو بہت پریکٹیکل ہے اور ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ہے جو اس طرح کرنا چاہتے ہیں لیکن ڈرتے ہیں۔

دوسرا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ او لیول اور اے لیول فائنل کے بچوں سے اضافی تین سے چار ماہ کی فیس کی وصولی ہے۔ جو سکول سے تو مارچ اور اپریل میں فارغ ہو جاتے ہیں۔ اپریل کے بعد سکول ان بچوں کو کوئی کسی بھی قسم کی سروسز مہیا نہیں کرتا اور مئی میں کیمبرج کے امتحان دینے کے بعد سکول سے تعلق واسطہ بالکل ختم ہو جاتا ہے۔

لیکن بعض سکول والے مئی سے اگست تک یعنی چار ماہ کی فیس کی سلپ ہاتھ میں تھما کر کہتے ہیں کہ پہلے یہ فیس جمع کروائیں پھر امتحان کے لیے statement of entry ملے گی۔ آج 17 اپریل کو میری بھانجی کا اے لیول کا امتحان شروع ہوا ہے۔ وہ ایک بہت مشہور سکول میں پڑھتی ہے جو اسلام آباد سے شروع ہوا تھا لیکن اب اس کی برانچیں ملک کے کئی شہروں میں موجود ہیں۔ اس کے اپریل تک کے واجبات کلئیر تھے لیکن سکول والے statement of entry نہیں دے رہے تھے۔ انہوں نے 62456 روپے کی فیس سلپ دے کر کہا کہ پہلے یہ جمع کروائیں پھر ملے گی۔ یہ فیس مئی سے اگست تک 4 ماہ کی ہے۔ جو سراسر ناجائز ہے کیونکہ یہ اس مدت کی ہے جس میں اس بچی کا سکول سے تعلق مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ یہ بات اگر ایڈمیشن کے ٹائم پر یا جس وقت داخلہ بھیج رہے تھے اس وقت بتایا جاتا تو یہ والدین کی سہولت پر تھا کہ آیا وہ اتنی بڑی رقم دینا افورڈ کرتے ہیں یا داخلہ پرائیویٹ بھیج دیں۔ لیکن اب بچی کا مستقبل داؤ پہ لگ چکا تھا۔

ہم ایک آخری کوشش کے طور پر کل سکول گئے کہ اس رقم کی لاجک سمجھ سکیں لیکن وہاں آفس کے باہر اور کئی لوگ بھی ملے جو سکول والوں کی سفاکی کی بھینٹ چڑھے ناجائز واجبات ادا کر کے statement of entry لے رہے تھے۔ ہم نے بھی انتظامیہ سے بات کی لیکن نتیجہ کچھ نا نکلا۔ ہمارے پاس دو ہی راستے بچے تھے پہلا تو یہ کہ ہم بچی کا سال ضائع کروا کر قانونی کارروائی کی طرف جاتے یا پھر اس کا سال ضائع ہونے سے بچانے کے لیے رقم ادا کر دیتے۔ ہم نے بھی جیسے تیسے رقم اکٹھی کر کے ادا کی اور اس قابل ہوئے کہ آج وہ امتحان دینے جا سکی۔ ہم بھی ان تمام والدین کی طرح بلیک میل ہو گئے جنہوں نے اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ بھرا۔

حکومت اور چیف جسٹس صاحب کی توجہ اس اہم مسئلے کی طرف درکار ہے۔ جہاں ہر ادارے کی بے ضابطگی کا نوٹس لیا جا رہا ہے تعلیم کا شعبہ بھی منتظر ہے کہ اسے بھی جھوٹے اور بڑے مافیا کو قانون کے شکنجے میں لا کر آزادی دلوائی جائے اور متاثرین کو انصاف دلایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).