ریاست کے ستونوں میں توازن ضروری ہے


آج کے جدید دور کی جمہوری ریاست علم حساب کی منطق پر مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ پر قائم تکونی ڈھانچے پر کھڑی ہے جس کے تینوں ستون ایک دوسرے کے ساتھ ہم پلہ ایستادہ رہ کر عمارت کی چھت یعنی اقتدار اعلیٰ کو سہارا دیتے ہیں۔ ان ستونوں کا اپنی جگہ سے ہلنے، کسی ایک ستون کے دوسرے سے بلند یا پست ہونے یا کمزور ہونے سے عمارت مخدوش اور کسی بھی ایک ستون کی شکست و ریخت سے بالآخر عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ ہم نے ماضی قریب میں ایسے مظاہر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جب سویت یونین کی یک جماعتی مقننہ پر کھڑی طاقتور ترین ریاست بکھر کر پاش پاش ہوگئی تو کروڑوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی صلاحیت رکھنے والی انتظامیہ اور بہ یک جنبش قلم درجنوں کو سزائے موت کی سزا دینے کی طاقت رکھنے والی عدلیہ بھی بے بس ہوئی۔

اقتدار میں عوام الناس کی شراکت کے لئے عمرانی معاہدے کے تحت جدید جمہوری ریاستوں کی ایسی تشکیل نے نہ صرف کسی ریاست کے اندر بسنے والوں کے پر امن بقائے باہم کو یقینی بنایا ہے بلکہ اس سے ایک آفاقی معاہدے کی شکل بھی ابھر کر سامنے آئی ہے جو امن عالم کا بھی ضامن ہے۔ پر امن بقائے باہم کے خوب کی تعبیر پانے کے لئے آگ اور خون کے دریاؤں، بے گور و کفن لاشوں، تاریک زندانوں، جلاوطنی اور کسمپرسی کی داستانوں سے اقوام عالم اور ریاستوں کی تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں مغلوں اور مقامی راجدھانیوں کی طوائف لملوکی کے بعد انگریزوں نے ایک جدید ریاست کی بنیاد مضبوط افسر شاہی پر مبنی انتظامیہ کے ساتھ اپنے بنائے قوانین کی نفاذ کے لئے باصلاحیت عدلیہ کے ستونوں پر رکھی۔ انگریزی قوانین کے اعلیٰ معیار اور بہترین نفاذ کے باوجود قانون سازی میں عدم شراکت نے ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کی تحریک کو جنم دیا جس نے بالآخر یہاں کے لوگوں کو اپنے منتخب نمائندگان کے ذریعے اپنے لئے قانون سازی کا حق دلوایا جس کو ہم آزادی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

مغلوں کی شکست کے بعد تاج برطانیہ نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1858 ء کی منظوری دی تو یہاں انتظامیہ کے خدوخال وضع ہوگئے جس میں سول افسران کی تعیناتی بھی عمل میں لائی گئی۔ 1861 ء کے قانون کے تحت ہندوستان کے لوگوں کو بھی کسی بھی عہدے میں اہلیت کی بنیاد پربھرتی ہونے کی اجازت مل گئی تو انگریزوں کو مقامی اہلکاروں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ انگریزوں نے یہاں تعلیمی ادارے قائم کیے جن کا بنیادی مقصد فوج کے لئے زبان و بیان سے واقف اہلکاروں اور ان کے دفتری امور کے رموز سے آشنا بابوؤں کی کمی پوری کرنا تھا۔

ابتدا میں انڈین سول سروس یا امپئریل سول سروس میں ہندوستان کے لوگوں کی ایک قلیل تعداد ہوتی تھی جو زیادہ تر بنگالی تھے مگر وقت کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ سول انتظامیہ کی یہ مشینری براہ راست برطانوی سرکار کے نمائندگان کو جواب دہ تھی۔ چونکہ یہاں فوجی اور دفاعی حکمت عملی کی اہمیت ہر وقت محسوس کی جاتی تھی اس لئے سول انتظامیہ پر فوجی فیصلہ سازوں کی بالادستی قائم رہی۔ سول اور فوجی انتظامیہ سات سمندر پار سرکار انگلیشیہ کی نمائندہ تصور کی جاتی تھی اس لئے اس کا درجہ بھی مالک اور آقا جیسا ہی تھا۔ یہ اہلکار اپنی پوشاک، رہن سہن، بول چال اور عادات و اطوار سے مقامی آبادی مختلف مگر اپنے آقاؤں کے نزدیک نظر آتے تھے جن کی تعلیم و تربیت بھی اس انداز میں ہوتی تھی جو ان کو دوسروں سے مختلف اور ممتاز کردے۔ انتظامیہ میں عوام کی عدم شرکت کی بنا پرکبھی لوگوں کو اپنے نمائندوں کے ذریعے ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کا موقع ہی نہیں ملا دیا جس کی وجہ سے عام لوگ یا تو سرکاری اہلکاروں کی تابعدار اور فرمانبردار تھے یا انگریزوں کی بدیشی حکومت کے خلاف مزاحمت میں بر سر پیکار۔

عدلیہ کے ارتقا ء کی تاریخ بھی اس سے مختلف نہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے انصاف کی فراہمی اپنی صوابدید پر ہی کیا جس میں مسلمانوں کے فیصلے قاضی اور ہندوؤں کے پنڈت کیا کرتے تھے۔ کہیں جرگہ اور کہیں قبائلی رواج کو قانون کا درجہ حاصل تھا۔ 1858 ء میں ہندوستان کے برطانوی پارلیمنٹ کے ماتحت ہونے اور گورنمنت آف انڈیا ایکٹ کے نفاذ کے بعد ہی عدلیہ کے بھی خدو خال وضع ہوگئے۔ عدالت کی فوجداری اور دیوانی مقدمات کی تقسیم تو ہوئی لیکن عدلیہ کے انتظامی اختیارات برقرار رکھے گئے جو ہندوستان میں برطانوی تسلط کے لئے آلہ کارکے طور پر استعمال کیے جاتے تھے۔

آزادی سے قبل برصغیر میں عدلیہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کے تحت انصاف فراہم کرتی تھی۔ عدالتوں کے دائرہ اختیار میں قانون کے سقم کی نشاندہی اور درستگی نہیں بلکہ ان قوانین کا نفاذ تھا جن کو بدلنے کا اختیار سمندر پار ایک ایسی مقننہ کے پاس تھا جس کے انتخاب میں ان کا عمل دخل نہیں تھا جن پر ان قوانین کا اطلاق ہوتا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کو جو عدلیہ ورثے میں ملی اس کے پاس آئین کی تشریح سے زیادہ قانون کے نفاذ کا تجربہ اور علم تھا اس لئے آئینی انصاف کے نظائر عدلیہ کی تاریخ میں نہیں ملتے۔

منتخب عوامی مقننہ کا وجود برطانوی تسلط سے آزادی کے بعد ممکن ہوا جس کے لئے برصغیر کے لوگوں کو ایک طویل جد وجہد سے گزرنا پڑا۔ آزادی کے بعد پاکستان میں ایک مضبوط انتظامی مشینری اور عدلیہ کے سامنے ایک نو زائیدہ قانون ساز اسمبلی تھی جس کا مقصد ایک نئی ریاست کے لئے آئین کی تشکیل تھا۔ نو سال بعد ایک آئین تشکیل پاکر مقننہ کے پہلے انتخابات سے قبل ہی طاقتور انتظامیہ کے ہاتھوں ردی کی ٹوکری میں پہنچ گیا۔ انگریز دور کی سول اور فوجی سروس کی تربیت یافتہ افسر شاہی نے قانون سازی اور امور مملکت میں نو آموز سیاستدانوں سے انتظامی معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کو بے آئین اور بے قانون ہی رکھا۔ عدلیہ نے بھی ملک کی انتظامیہ کے آگے سرنگوں کیا جس کی وجہ سے مقننہ کا ستون زمین بوس ہوا۔ مقننہ کی غیر موجودگی میں اختیارات شخصی اور گروہی فیصلوں کے تابع ہوگئے تو ملک کی اکثریتی آبادی نے عدم اعتماد کا اظہار یوں کیا کہ ریاست بکھر کر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔

برصغیر میں حق قانون سازی کا حصول ہی آزادی کی منزل تھی وگرنہ ریلوئے، ڈاک خانہ، پولیس، انتظامیہ، نظام تعلیم اور دیگر انتظامی اداروں کی داغ بیل تو انگریزوں نے ڈالی تھی۔ پسند اور ناپسندیدگی کی بنیاد پر کیے جانے والے انصاف کے پنچایتی، جرگوں، قاضیوں اور پنڈتوں کے عدالتی نظام سے عدلیہ کو کثیرالسطحی عدالتی نظام میں تبدیل بھی انگریز آقاؤں نے کیا تھا جو آج بھی قائم و دائم ہے۔ اگرآزادی کے بعد کوئی چیز نئی ملی ہے تو وہ لوگوں کا ایک منتخب مقننہ کے ذریعے حق قانون سازی اورعوام کا اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے حق حکمرانی ہے جو پہلے مفقود تھا۔ منتخب مقننہ کے اور منتخب انتظامیہ کے ستونوں کے عوامی طاقت سے کھڑا ہونے کی وجہ سے ہی لوگوں کی امور مملکت میں شراکت داری ہے وگرنہ یہ نظام تو مغل، انگریز اور جرنیل سب ہی چلاتے رہے ہیں۔

جب بھی ریاست کے ستونوں میں سے کوئی ایک کمزور یا اپنی حد سے تجاوز کر گیا شہریوں نے اپنے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ایوب خان، یحیٰ اور ضیا ءالحق کے ادوار میں آئین اور مقننہ کی بحالی کے لئے لوگوں کی قربانیاں اور مشرف کے دور میں عدلیہ کی بحالی کے لئے جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام ریاست کے ان تینوں ستونوں میں سے کسی کو بھی کمزور دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ عام لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ریاست اور شہریوں کے درمیان معاہدہ عمرانی کے مطابق تینوں ستونوں میں ہم آہنگی، توازن اور ربط کے لئے ان تمام اداروں کا اپنی جگہ قائم رہنا اور کام کرتے رہنا ضروری ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan