یہ آوارہ، بدچلن اور باغی عورتیں


نگوڑی نے گھر سے قدم نکالا تھا کہ کچھ بن کر دکھاوں گی اور وہی قدم جب گھر کو لوٹے اور سکون کی نیند گھر کے بستر پر آئی تو ابدی نیند سلا کر سماج کو ایک برائی سے پاک کردیا گیا۔ جاتے جاتے بھی کتنے دل توڑ گئی وہ مرد جو نیک اور کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی بیوی کی گہری نیند کو اپنی توہین اور نظر اندازی سمجھتے تھے تب سوشل میڈیا پر آنے والی اس آوارہ کی ویڈیوز دیکھ کر ہی تو اپنی رات سکون سے گزارلیا کرتے تھے، بیوی بھی صبح اٹھ کر نماز فجر میں شکر ادا کرتی کہ شوہر اب اچھا ہوتا جارہا ہے میری سختی کچھ کم ہونے لگی ہے اب نیند بھی پوری ہونے لگی ہے نہ گھر میں چک چک ہے نہ بک بک بس اب زیادہ سے زیادہ موبائل یا لیپ ٹاپ پر مصروف رہتے ہیں تو چلو لڑائی سے تو بچت ہے۔ یہ آوارہ بلبل جاتے جاتے کئی کے دل و یران اور راتیں بے مزہ کر گئی اور اب دنیا بولتی ہے کہ اسے کیوں مارا؟

وہ مختاراں مائی یاد ہے؟ جسے پنچایت میں فیصلہ سنایا گیا کہ اجتماعی زیادتی سے ہی انصاف اور عزت کا بدل مل سکتا ہے۔ میں تو حیران ہوں کہ ایک عورت جسے بچپن میں کوئی ماما، چاچا، کزن یا منہ بولا بھائی ہاتھ لگادے اور ہوس کی آگ بجھا لے وہ جوانی تک پہنچنے اور قبر میں جانے تک اندیشوں، خوف اور ناپاکی کا احساس لئے زندہ درگور ہوجاتی ہے اور ایک یہ بے حیا بے شرم ایک گاؤں میں جہاں عورت بھی گھونگھٹ ڈالے پگڈنڈی سے گزرے وہاں اتنے مردوں سے عزت تار تار کروانے کے بعد بھی جی رہی ہے اور جینا بھی تو دیکھو ایسا کہ لڑکیوں کی تعلیم کی بات کرتی ہے۔ زچہ بچہ کی دیکھ بھال پر گھر گھر جاکر عورتوں سے ملتی ملاتی ہے۔ کوئی اس سے آج بھی واقعے کا افسوس کرنے آئے تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے۔ کسی اور آوارہ لڑکی کے ساتھ جائز ریپ ہوجائے تو اسے ناجائز اور زیادتی قرار دلوانے کے لئے انصاف کے دروازے کھٹکھٹانے پہنچ جاتی ہے۔ جبکہ ہونا یہ چائیے تھا کہ خود کو تیل چھڑک کر آگ لگا لیتی کچھ تو ہمارے ملک کی عز ت رہ جاتی کلنک کا ٹیکہ بن کر رہ گئی ہے۔

اسی کی طرح ایک اور بھی تھی جو سوئی کے مقام پر ڈاکٹری کی ذمہ داری ادا کرنے چلی تھی۔ کیا ڈاکٹری گھر کے کونے والے کمرے کو کلینک بناکر نہیں ہوسکتی جس کے دروازے پر صاف صاف لکھا جاتا ہے کہ صرف خواتین اور بچے آسکتے ہیں۔ ایک تو یہ شعبہ ہی بے حیائی کا اوپر سے گھر بار چھوڑ کر بلوچستان جاکر منتقل ہوگئی اور سمجھی کہ اسپتال سے گھر کا راستہ کم ہے تو سب ٹھیک رہے گا، گھر آجاؤ تو دروازوں کو کنڈی لگا کر گھر محفوظ ہوجاتا ہے۔ کوئی پوچھے تجھ سے ڈاکٹر شازیہ کی کنڈی تو ٹوٹ بھی سکتی ہے کھل بھی سکتی ہے۔ تم نے تو شرم کا لبادہ اسی روز اتار پھینکا تھا جب گھر سے شہر سے دور جاکر لوگوں میں مسیحائی بانٹنے کا فیصلہ کیا تھا۔

گھر سے نکلی عورت بھی کوئی عزت دار ہوتی ہے؟ وہ تو مفت کا مال ہوتی ہے عالیشان ہوٹل میں ملنے والا کھانا پلیٹ میں تمیز سے ڈالا جاتا ہے چمچہ ہاتھ سے چھوٹ جائے تو مارے شرمندگی نظر اٹھائے نہیں اٹھتی کہ لوگ کیا سوچیں گے بڑی جگہ آکر بھی کھانے کی تمیز نہیں، پر ابلتے گٹر کے سامنے تلتے سموسے کھانے کے لئے کوئی کرسی میز نہیں ڈھونڈی جاتی نہ ہاتھ دھونے اور منہ کم کھولنے کی زحمت کی جاتی ہے۔ کھلا مال کھلے منہ میں ایسے ہی ڈالا جاتا ہے جیسے بھوکے کتے کو کئی دن بعد ہڈی ڈالی جائے تو وہ کھانے کے آداب بھول جاتا ہے تو عزت لٹنے پر اتنا واویلا کیوں؟ یہ موقع تو تم نے خود دیا اگلے کو کیا پڑی تھی کہ وہ آتا، نکلی تو تم گھر سے تھی شئے تو تم نے دی تھی۔ نیت تو تمہاری کھوٹی تھی و رنہ اگلا تو اچھے سے نیک اور بد، شریف اور بے عزت کی تعریف سے واقف ہے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلہ صفحہ” کا بٹن دبائیں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar