یہ آوارہ، بدچلن اور باغی عورتیں


ان سب میں، میں کیسے بھول گئی سوات کی اس سب سے بڑی باغی کو جو پارسائی کی دیوی بنی سر پر دوپٹے اوڑھے پر دیس میں بے شرم غیر ملکیوں کے ساتھ پاک صاف ملک کی سا لمیت کا سودا کرتی ہے۔ وہ جو تعلیم کے نام پر فنڈ اکٹھا کر کے سارے جہاں کی لڑکیوں کو تعلیم کے نام پر اپنے جیسا آوارہ بنانا چاہتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ جو زندگیاں موت کے گھاٹ اتار دی گئیں وہ ناحق ماری گئیں جینا ان کا حق تھا۔ اس لئے وہ اس کوشش میں لگ گئی کہ تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس کی بدولت اب سب لڑکیاں ملکر ایک آوارہ بریگیڈ بناسکتی ہیں تاکہ عزت دار مردوں کا بے شرمی سے مردانہ وار مقابلہ کیا جاسکے۔ اس کی ڈھٹائی کو بھی سلام ہے ویسے جس نے جعلی گولی کھائی، اپنا چہرہ بگاڑ لیا لیکن زبان چلانا کم نہ کی۔

روز لاکھوں لوگوں کی نفرتیں سمیٹتی ہے پر مجال ہے کہ غیرت اسے چھو جائے، غیرتمند ہوتی تو ایک تازیانے کا پتھر بھی پڑنے اور گالی کا نشتر لگنے پر چلو بھر پانی میں ڈوب مرتی پر میری سوچ سے کہیں زیادہ باغی نکلی اور ستم ظریفی یہ کہ اس کو ایسا بنانے میں کوئی اور نہیں اس کا اپنا سگا باپ شامل ہے۔ جو سمجھتا ہے کہ میں ساتھ کھڑا ہوں تو میری بیٹی محفوظ ہے لیکن یہ نہیں جانتا اس کیبیٹی پر بھلے کسی کا ہاتھ نہ پہنچ سکے لیکن الفاظ سے بھی وہ کام کیا جاسکتا ہے جو ہتھیار نہ کرسکے۔ وہ شاید بھول گیا ہے کہ ہمارے مر د ابھی بھی اتنے غیرتمند ہیں جو آج بھی اٹھنے والے آوارہ قدموں کو اکھاڑ پھینکتے ہیں، ان جسموں کو بھون ڈالتے ہیں جو محفل میں گانے آئے لیکن ناچنے سے انکار کردے، ان رداؤں کو تار تار کردیتے ہیں جن کے ہونے کا گمان ایک عورت کو رہتا ہے کہ وہ ڈھکی ہوئی ہے چھپی ہوئی ہے لیکن سارا گاؤں اس کا یہ گمان خاک میں ملا دیتا ہے۔

وہ بھول گیا ہے کہ ابھی بھی کچھ ایسے ہیں جن کی طاقت اور غیرت ان گردنوں اور ہاتھوں پر دانت گاڑ دیتی ہے جو یہ سمجھتی ہیں اماں ابا گھر نہیں تو کیا ہوا یہ میرا محلہ ہے میں جب چاہے باہر نکلوں جب چاہے گھر دوڑتی واپس آجاوں، یہ میرا جنگل ہے جہاں روز میرے جانے سے گلہریاں چھلانگیں بھرتی میرے آنے کی خوشی مناتی ہے، کوئل کوکتی ہے، ہرنیں چھپ چھپ کر دیکھتی اور پھر دوڑنے لگتی ہیں، گھونسلوں سے جھانک کر چڑیوں کے بچے شور مچاتے ہیں اماں آصفہ آگئی ہے اپنے گھوڑوں کے ساتھ، دیکھو تو ذرا جب یہ اتنی چھوٹی سی باہر آسکتی ہے تو ہم کیوں نہیں؟ پر آج اماں چڑیا نے بتایا کہ ”آصفہ جلدی باہر آگئی تھی اس لئے اسے ہمیشہ کے لئے بھیج دیا گیا ہے جو جلدی باہر قدم رکھتا ہے اسے یا تو جانور اپنا حق سمجھ کر کھا جاتا ہے یا پھر گناہگار سمجھ کر دنیا کو پاک کردیتا ہے تو چپ کر کے گھونسلے میں ر ہو“، بھلے بھوکے مر جاؤ لیکن باہر نہ جانا اس وقت بھی نہیں جب مجھے بھی کوئی آوارہ جان کر شکار نہ کرلے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar