طیبہ تشدد کیس میں کب کیا ہوا؟


کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے جسے عوامی حلقوں، سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں سراہا جا رہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کو ایک، ایک سال قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

صوبہ پنجاب کے وسطی شہر فیصل آباد کے قریبی گاؤں سے تعلق رکھنے والی طیبہ کئی برسوں سے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کے مکان پر ملازمہ تھیں اور ان کی اہلیہ نے اس بچی کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

طیبہ کیس: ’انگوٹھا لگاؤ اور بچی لے جاؤ‘

طیبہ تشدد کیس میں سابق جج اور اہلیہ کو ایک برس قید

طیبہ کیس: ملزم جج اور ان کی بیوی پر فرد جرم عائد

ملازمہ پر تشدد کا واقعہ دسمبر 2016 میں سامنے آیا تھا اور ذرائع ابلاغ میں شور مچنے کے بعد اسلام آباد کے تھانے آئی نائن میں اس واقع کی ایف آئی آر 29 دسمبر 2016 کو درج کی گئی تھی۔

مقدمہ درج ہونے کے بعد اس کیس کی عدالتی کارروائی کے دوران پیش آنے والے اہم واقعات:

مقدمے کا از خود نوٹس

پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کمسن طیبہ پر تشدد کے واقع کا از خود نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو حکم دیا کہ وہ بچی، اس کے والد اور ملزمہ کو چھ جنوری 2017 کو عدالت کے سامنے پیش کرے۔

چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد از خود نوٹس کی بنیاد پر پہلی عدالتی کارروائی کے لیے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دو رکنی بینچ بھی تشکیل دیا تھا۔

ماں ہونے کی دو دعویدار عدالت پہنچ گئیں

چھ جنوری 2017 کو ہی جب سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت کا آغاز ہوا تو دس سالہ طیبہ کی ماں ہونے کی دعویدار دو خواتین سپریم کورٹ میں پہنچ گئیں۔

یہ دونوں خواتین فیصل آباد کی رہائشی تھیں جن میں سے ایک کا نام فرزانہ اور دوسری کا نام کوثر تھا۔

پولیس نے دس سالہ طیبہ کے والدین ہونے کے دعویداروں کا ڈی این اے ٹیسٹ لیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان کے اصل والدین کون ہیں۔

طیبہ

طیبہ اسلام آباد سے بازیاب

عدالت نے متاثرہ بچی اور اس کے والدین کو عدالت میں پیش نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ بچی، اس کے والدین اور تمام تفتیشی ریکارڈ عدالت میں 11 جنوری کو ہونے والی سماعت میں پیش کیا جائے۔

جس کے بعد اسلام آباد پولیس کی خصوصی تفتیشی ٹیم نے مضافاتی علاقے برما ٹاؤن سے طیبہ کو بازیاب کرایا۔

طیبہ کے جسم پر تشدد کے نشانات

دس جنوری 2017 کو تشدد کا شکار ہونے والی دس سالہ کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ کے طبی معائنے کی ابتدائی رپورٹ جاری کی گئی۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے چار ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ نے طیبہ کے طبی معائنے کے بعد رپورٹ اسلام آباد پولیس کے حوالے کی۔

میڈیکل لیگل رپورٹ (ایم ایل آر) کے مطابق طیبہ کے جسم کے مختلف حصوں پر زخموں کے گیارہ نشانات تھے، جس میں کنپٹی کے دائیں حصے اور ہاتھ پر زخموں کے نشانات واضح تھے۔ اس کے علاوہ بازو، ٹانگوں اور کمر پر بھی تشدد کے نشانات پائے گئے تھے۔

پاکستان

والد نے ملزمان کو معاف کر دیا

دس جنوری ہی کو طیبہ کے والد کی جانب سے ملزمان کو معاف کرنے کے بعد عدالت نے اس وقت کے دونوں ملزمان کی ضمانت منظور کر لی تھی۔

‘انگوٹھا لگاؤ اور بچی لے جاؤ’

11 جنوری کو جب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے طیبہ کے والد سے چند سوالات کیے تھے جس میں طیبہ کے والد نے بتایا کہ ایک وکیل ایک کاغد (صلح نامہ) لے کر ان کے پاس آیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ وہ اس پر انگوٹھا لگا دیں تو انھیں بچی مل جائے گی۔

عدالت نے طیبہ کو سویٹ ہوم بھجوا دیا

اسی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے طیبہ کو سویٹ ہوم بھجوایا اور اسلام آباد پولیس کو اس کی سکیورٹی کے مناسب اقدامات کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے اسلام آباد پولیس کے حکام کو کہا کہ وہ اس واقعے سے متعلق دس روز میں رپورٹ دیں تاکہ ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جا سکے۔

طیبہ

سیشن جج کو کام سے روک دیا گیا

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے 12 جنوری 2017 کو اس وقت کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔

عدالت نے راجہ خرم علی خان کو آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی مقرر کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ پولیس حکام نے متعلقہ ہائی کورٹ کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا کہ اس مقدمے کی تفتیش میں ملزمہ کے خاوند راجہ خرم علی خان جو اسلام آباد میں اس وقت ایڈیشنل سیشن جج تھے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

جج اور ان کی بیوی پر فرد جرم عائد

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 16 مئی 2017 کو سابق ایڈشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور اُن کی بیوی پر فرد جرم عائد کی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ملزمان کی موجودگی میں ان پر فرد جرم عائد کی جس سے انھوں نے انکار کیا۔

فیصلہ محفوظ

حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے 27 مارچ 2018 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اس مقدمے میں 19 گواہان تھے جن میں 11 سرکاری جبکہ آٹھ غیر سرکاری افراد تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp