پردیس میں بے بسی کی موت اور بہنوں کی نئی زندگی


اس طرح کے واقعات اب عام ہوگئے تھے، ہر تھوڑے دنوں کے بعد مجھے یہ ہی سب کچھ کرنا پڑتا تھا۔ نوجوان لوگوں کی لاشیں، ان کے جوان چہرے بھربھرے بالوں والے سر، ہونٹوں کے اوپر ہلکی ہلکی مونچھوں والے نوجوان جو اپنی زندگی بنانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار تھے اور نہ جانے کیسے کیسے، کہاں کہاں سے ہوتے ہوئے دھکے کھاتے ہوئے اپنی اُمنگوں، اپنے خوابوں اور اپنے گھروالوں کے دُکھوں کے ساتھ یورپ کے سمندروں کا شکار ہوجاتے تھے۔ میں اِن لاشوں کے چہروں کو غور سے دیکھتا تھا۔ یہ کبھی ہنستے ہوں گے زور سے قہقہہ لگاتے ہوں گے، ان کی آنکھوں میں چمک ہوتی ہوگی، ان کے ہونٹوں نے اپنے ماؤں بہنوں کے ماتھوں کو چھوما ہوگا، کسی محبوبہ کے خواب دیکھے ہوں گے اور ان سے بچھڑتے وقت اپنی نم آنکھوں کو چھپاتے ہوئے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا ہوگا، وہ خواب، وہ ہنسی، وہ قہقہہ، وہ بوسہ سب کچھ سمندروں کی بے درد نمک زدہ لہروں کی نذر ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں ایک مافیا کام کررہا تھا۔ شہروں اوردیہاتوں کے لوگ ان نام نہاد کارندوں کو لاکھوں روپوں کی صورت میں رقم دیتے تھے۔ ان کے پاسپورٹوں پر ایران و عراق کے زیارت کے ویزے لگائے جاتے، پھر انہیں بلوچستان کے راستے ایران لے جایا جاتا، کبھی عراق اور کبھی شام۔ جہاں سے انہیں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار کیا جاتا، یا جہازوں کے کنٹینروں میں مویشیوں سے بھی بدتر صورتوں میں بند کردیا جاتا۔ کبھی انہیں ایران کے راستے ترکی کی سرحدوں پر لا کر ترکی میں دھکیل دیا جاتا، جہاں سے وہ مختلف سمندری اورخشکی کے راستوں سے یورپ کے مختلف ملکوں میں گھسنے کی کوشش کرتے اور نہ جانے کتنے ان ہی راستوں پر جان دے دیتے تھے۔

ہر تھوڑے دنوں کے بعد عجیب عجیب باتیں عِلم میں آتی تھیں۔ ایک دفعہ لاش ٹرک کے پیٹرول کی ٹنکی سے ملی جسے تقسیم کرکے ایک حصّے میں انسانوں کا اسمگل کیا جاتا تھا۔ کسی لاری کے خفیہ خانے میں تابوت بنا کر لیٹے ہوئے آدمی کی جان چلی گئی۔ ریل کی مال گاڑی میں سفر کرتے ہوئے سردی سے جان کھو بیٹھے۔ میں ان چہروں، ان لاشوں، ان جسموں، ان جوان لوگوں کے مردہ خوابوں کو دیکھ کر محسوس کرکے پریشان ہوجاتا تھا مگر میرے بس میں کچھ بھی نہیں تھا۔ جن لوگوں کے بس میں تھا وہ اسلام آباد لاہور اور کراچی کے عظیم الشان محلوں میں بیٹھ کر اپنی اور اپنے بچوں، اپنے خاندانوں، اپنے دوستوں کی شاندار زندگی کو سنوارنے، گزارنے میں لگے ہوئے تھے۔ میرا دِل خون کے آنسو روتا تھا، میرے بس میں یہی تھا اس کے علاوہ میں کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔

دوسرے دن پاکستان ایمبیسی میں بیٹھ کر میں نے بہاولپور اور خان پور کے درمیان ایک چھوٹے سے شہر کے لوگوں کے مختلف فون نمبر حاصل کیے تاکہ ان مرنے والوں کے وارثوں کا سراغ مل سکے۔ مجھے فون پر امتیاز احمد کے نام کے ایک شخص نے بتایا کہ وہ اس گاؤں سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے انہیں جب میں نے تفصیلات بتائیں تو وہ مدد کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے۔ انہوں نے مجھے چھ گھنٹے کے بعد فون کرنے کے لیے کہا تھا۔

پاسپورٹ کی تفصیلات کے مطابق مرنے والوں میں سے ایک کا نام محمد رفیق ولد محمد سعید تھا اس کا گاؤں امتیاز صاحب کے گھر سے قریب تھا۔ میں نے امتیاز صاحب سے درخواست کی کہ اگر ممکن ہوسکے تو وہ کسی کو اس گاؤں بھیج دیں یا خود چلے جائیں اور گھر والوں کو اس اندوہناک واقعے کی خبر کریں، یا میری ان سے بات کرادیں تاکہ میں خود انہیں اس بارے میں بتاؤں۔ چار گھنٹے کے بعد امتیاز صاحب کا ایس ایم آیس آگیا کہ میں انہیں فون کروں۔ وہ اس وقت اس گاؤں میں ہی تھے۔ وہ محمد رفیق کے گھر والوں سے مل کر فون کا انتظار کررہے تھے۔

میں نے انہیں فوراً ہی فون کیا، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے محمد رفیق کے خاندان کو تلاش کرلیا ہے جو بہت ہی خراب حالات میں ہیں۔ اتنی خراب حالات میں ہیں کہ انہیں اس بات کی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ وہ انہیں بتاسکیں کہ ان کے بیٹے کی موت سمندر میں ڈوب جانے سے ہوچکی ہے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5