پردیس میں بے بسی کی موت اور بہنوں کی نئی زندگی


اس نے بھی مجھے پہچان لیا اور میرے پاس آگیا تھا اس کے چہرے پر تازگی تھی اور وہ اس لڑکی کے ساتھ اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے اس سے ملانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ میرے گلے لگ گیا تھا۔ بہت خوش لگ رہے ہو میں نے اس سے اُردو میں کہا تھا۔

میں ٹھیک ہوں، بہت خوش ہوں یہ میری بیوی ہے، صوفیہ۔ یہ میلان کی رہنے والی ہے، اس نے اٹالین زبان میں مجھے جواب دیا تھا۔
میں نے صوفیہ سے بھی ہاتھ ملایا اور دونوں کو سامنے ہی موجود پیزا کیفے میں کھانے کی دعوت دے دی تھی۔ وہ دھیرے سے مسکرائی تھی۔ مجھے پتا تھا کہ اس کی مسکراہٹ بناوٹی نہیں تھی۔
محمد نصیب فوراً ہی راضی ہوگیا تھا اور وہ بھی خوش دلی سے تیار ہوگئی تھی۔ صوفیہ مجھے اچھی لگی تھی اور وہ دونوں ہی مجھے خوش لگ رہے تھے۔ گرم گرم اٹالین پیزا کھانے کھاتے، اس نے اپنی زندگی کے پرت کھول دیے تھے۔

مجھے پتا ہے کہ آپ ناراض ہوں گے کیوں کہ میں غائب ہوگیا تھا۔ میں ایسا سوچ کر آیا نہیں تھا میں نے تو سوچا تھا کہ بھائی کی لاش کے ساتھ واپس چلا جاؤں گا۔ مگر جن کے گھر ٹھہرا تھا انہوں نے ہی کہا کہ میں رُک جاؤں۔ کام کی کوئی کمی نہیں ہے یہاں پر۔ ہماری اُردو میں باتیں سن کر صوفیہ کھانے کے بعد یہ کہہ کر چلی گئی تھی کہ اسے کچھ چیزیں لینی ہے اور وہ تھوڑی دیر میں یہاں واپس آجائے گی۔ ہم دونوں کو ہی کوئی اعتراض نہیں تھا اس پر۔

مجھے یہاں کے ایک گاؤں میں کھیتوں پر کام مل گیا تھا پھر صوفیہ بھی وہیں مل گئی تھی اور وہیں شادی کرکے میں اٹالین ہوگیا ہوں اس نے مسکراتے ہوئے دوسری پرت اٹھائی تھی۔
سب پاکستانی یہی کرتے ہیں۔ تم نے کیا تو کیا برا کیا۔ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔
کسی کو تو قرض اتارنا تھا صاحب۔ رفیق کے لہجے میں بڑا درد تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے دِل پر لگی لگی ہوئی پرانی چوٹ تازہ ہوگئی ہے۔

ہمارا بہت سا قرض اترگیا ہے۔ میری دو بہنوں کی شادی ہوگئی ہے صاحب، بہت کام کرتا ہوں میں یہاں پر، میں اور صوفیہ ہم دونوں کام کرتے ہیں۔ یہ بہت اچھی لڑکی ہے صاحب نہ جانے مجھے کیسے مل گئی۔ اسے سب بتادیا ہے میں نے وہ سب سمجھتی ہے، میں بہت قسمت والا ہوں کہ میری اس سے شادی ہوئی ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا تھا،
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے پانی کا ایک بھرا ہُوا گلاس پیا اور کھوئی کھوئی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بڑے دھیمے سے بولا تھا۔

رفیق مرگیا تو ہم سب مرگئے، صاحب سب مرگئے۔ آپ نے مرے ہوئے زندہ لوگ نہیں دیکھے ہوں گے، میری ماں میری بہن سب ہی زندہ ہیں مگر سب مرگئے تھے، مرے ہوئے زندہ لوگ۔ لیکن میرے یہاں ہونے سے وہ لوگ زندہ ہورہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان میں جان پڑرہی ہے، ان کے چہروں پر روشنی آرہی ہے، ان کی آنکھوں نے جھپکنا سیکھا ہے، ان کے ہونٹوں پرمسکراہٹ مچلنے لگی ہے۔ اب میری چوتھی بہن کی شادی ہورہی ہے، بڑے اچھے لڑکے کے ساتھ، میری ماں نے بڑی خوشی سے مجھے بتایا ہے، وہ زندہ ہورہی ہے صاحب وہ زندہ ہورہی ہے۔

ہم دونوں شادی پر جائیں گے اور اس شادی پر میں اپنی پانچویں بہن کا بھی رشتہ طے کردوں گا۔ میں نے کافی پیسے جمع کرلیے ہیں صاحب، کافی پیسے۔ مجھے پتا ہے میری ماں رفیق کو کبھی نہیں بھولے گی لیکن جب آخری بہن کے ہاتھ بھی پیلے ہوجائیں گے تو وہ تھوڑی سی سُکھی تو ہوجائے گی۔ اسی سُکھ کے لیے تو میں یہاں رُک گیا تھا آپ سے چھپ کر۔ کچھ غلط تو نہیں کیا صاحب میں نے یہاں رہ کر؟

اس نے گہری نظروں سے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ اس کی نظروں میں سوال تھا، بہت بڑا سوال۔
پیزا کے اس آخری پرت نے میری آنکھوں میں آنسو بھردیے تھے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5