پردیس میں بے بسی کی موت اور بہنوں کی نئی زندگی


اٹلی کے چھوٹے سے شہر کے قبرستان میں بائیس تابوت ایک ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ 17 تابوتوں کے اوپر لکھا ہُوا تھا کہ نامعلوم جب کہ دو تابوت پاکستانیوں کے تھے، تین دوسرے تابوتوں میں تین عراقیوں کی لاشیں تھیں۔ نامعلوم اور غیر شناخت شدت لاشوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ شاید ان میں سے کچھ کا تعلق عراق یا فلسطین سے ہو اورکچھ پاکستانی لگتے تھے۔

میں اٹلی کے شہر روم میں واقع انسانی حقوق سے متعلق ایک تنظیم کا ملازم تھا۔ آپریشن اومیگا نام کی یہ تنظیم دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اورانسانی حقوق کی پائیداری کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ تنظیم ایک ایسی مال دار بیوہ نے بنائی تھی جس کا شوہر افریقہ میں قتل کردیا گیا تھا وہ افریقہ میں کافی کے کاشتکاروں کو حقوق دلانے کے لیے جدوجہد کررہا تھا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ افریقہ میں کافی کے کاشتکاروں کو مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے گٹھ جوڑ سے نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں کافی بہت مہنگی بیچی جاتی ہے، جب کہ مقامی کاشتکاروں کو اس کا عشرعشیر بھی نہیں ملتا ہے۔ پھر افریقہ میں ہی اسے ماردیا گیا تھا کیوں کہ اس کی چلائی ہوئی مہم سے کاشتکار منظم ہوکر کافی کی کمپنیوں کے خلاف متحرک ہونے لگے تھے، اس کے قتل کے بعد مہم تیزی سے دبا دی گئی تھی۔ اس کے قتل کا مقصد ہی یہی تھا جس میں لوگ کامیاب ہوگئے تھے جو کاشتکاروں کی کامیابی نہیں چاہتے تھے۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی بیوی نے اس کی دولت سے اس کی یاد میں ایک ایسی تنظیم بنائی جو خاص طور پر غیرقانونی تارکین وطن کے حقوق اور ان کی فلاح کے لیے مصروف عمل تھی۔ شروع میں میرا تقرر لندن میں ہُوا تھا جہاں دو سال کام کرنے کے بعد مجھے روم بھیج دیا گیا تھا۔

اٹلی میں میری ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ یورپ میں داخل ہونے والے وہ غیر یورپی جو غیرقانونی طورپر یورپ میں داخل ہونے کی صورت میں موت کا شکار ہوجاتے ہیں یا پولیس کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں یا شدید بیماری کی صورت میں ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہیں ان کے مسائل کو سمجھ کر انہیں مدد فراہم کرنے کا انتظام کروں۔ میں اس کام میں کافی مصروف رہتا تھا، غریب ملکوں کے بے شمار لوگ ہر تھوڑے دنوں کے بعد کسی نہ کسی طرح سے بُرے سے بُرے حالت میں پہنچتے تھے جن کے لیے اپنی تنظیم کی طرف سے بہت کچھ کرنا پڑتا تھا۔ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جارہا تھا۔ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں سے غیرقانونی آنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی تھی اور میرا کام بھی بڑھ رہا تھا۔ اس کام میں اٹلی کی حکومت کا محکمہ داخلہ تعاون کرتا تھا۔ وہاں کے افسران سے میری کافی دوستی ہوگئی تھی، گو کہ مجھے آئے ہوئے صرف چھ ماہ ہوئے تھے لیکن کام کے ساتھ ساتھ اٹلی بھی مجھے اچھا لگنے لگ گیا تھا۔

اٹلی کے لوگ ہنسنے بولنے والے لوگ ہیں جو بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پیزا کھاتے ہیں اور نئے نئے طریقوں سے پیزا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کی زندگی بھی ٹھنڈے اور گرم پیزے کی طرح ہے، گرم پیزا ہر ایک کو اچھا لگتا ہے، ٹھنڈا پیزا سب ہی لوگ ٹھکرا دیتے ہیں، جس طرح پیزا آسانی سے بن جاتا ہے اور آسانی سے ختم بھی ہوجاتا ہے، اسی طرح سے اٹلی میں زندگی بھی آسانی سے شروع ہوتی ہے اورآسانی سے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ہنسنا بولنا، ناچنا گانا، پینا پلانا اور کام کے وقت کام کرتے ہوئے موت آجائے تو مرجانا، مجھے تو ایسا ہی لگتا تھا۔ جیسے جیسے میری دوستی اٹلی کے لوگوں سے ہوتی گئی ویسے ویسے یہ لوگ مجھے سمجھ میں آتے گئے۔ یہ لوگ کئی پرتوں میں رہتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے پیزا کی مختلف پرت ہوتی ہیں اور پرتوں کی تعداد کا انحصار اس بات پر ہے کہ پیزا کتنا مہنگا ہے، بازاری لوگوں سے لے کر دیہاتی لوگوں تک، شہری مزدورآبادی سے لے کر امیر لوگ اورپڑھے لکھے دانشمند لوگوں سے لے کر شہر کے عام لوگ، ہر ایک کی اپنی اپنی پرتیں تھیں۔

ہر طرح کا اطالوی اندر سے اپنی تاریخ پر بڑا گھمنڈی ہوتا ہے۔ میں سوچتا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے قبل ایک عظیم الشان تہذیب و ثقافت اور حکومت کے ساتھ اگر یہ گھمنڈی ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ زندوں کی طرح زندہ رہنے کے لیے جہاں آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے وہاں تاریخ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ جن قوموں کی تاریخ ہوتی ہے اور انہیں اپنی تاریخ کا پتا بھی ہوتا ہے، ان قوموں کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے۔ تاریخ اچھی ہو یا بُری قوموں کے لیے وہ آکسیجن کی ہی طرح ہوتی ہیں۔ وہ اچھے دنوں کو یاد کرکے زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں یا بُرے دنوں کی تاویلوں کی بنیاد پر جیتے ہیں یا تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنی نئی تاریخ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اٹلی کی حکومت کے اہلکار اپنا کام کرچکے تھے، تمام لاشوں کی تصاویر لی جاچکی تھیں، ان کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرکے پانچ پانچ علیحدہ شیشیوں میں ڈال کر علیحدہ علیحدہ ڈبوں میں بند کردیا گیا تھا۔ 17 لاشیں جن کی کوئی شناخت نہیں ہوسکی تھی تھی ان کے دفنانے کے لیے مجھے ہی انتظامات کرنا تھے، اس کام کے لیے اسی شہر کی ایک کمپنی سے ہم لوگوں کا معاہدہ تھا۔ میں نے انہیں فون پر بتا دیا تھاکہ 17 لاشوں کو دفن کرنا ہے، جس کے لیے انہوں نے انتظامات شروع کردیے تھے۔ ان کی گاڑیاں آنے والی تھیں، لاشوں کو مردہ خانہ میں کچھ دن کے لیے محفوظ رکھا جانا تھا اور تمام تر قانونی کارروائیوں کے بعد انہیں دفن کرنا تھا۔

تین عراقیوں کی شناخت تو ان کے جسم سے بندھے ہوئے تین پاسپورٹوں سے ہوئی، اسی طرح سے ایک پاکستانی کی لاش کے ساتھ بھی پلاسٹک کی تین تھیلیوں کے پرتوں کے اندر اس کا پاسپورٹ محفوظ تھا۔ اس کا تعلق پنجاب کے سرائیکی علاقوں سے تھا۔ میں نے لاشوں کو روم شہر کے ایک برف خانے بھجوا دیا جہاں لاشوں کو دیر تک محفوظ رکھنے کے انتظامات تھے۔ اس اُمید کے ساتھ اگلے کچھ دنوں میں ان کے عزیز و اقارب کا پتا لگ جائے گا تو آگے کا سوچا جائے گا۔

ابراٹو کے ساحلی شہر سے میں واپس روم شام تک پہنچ سکا تھا۔ دوسرے دن روم میں پاکستان کے سفارت خانے جا کر کوشش کرنا تھی کہ ان پاکستانیوں کے عزیز و اقارب کا پتا لگے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5