زچگی کے بعد طاری ہونے والا ڈپریشن خطرناک ہو سکتا ہے


20 جون 2001ء کے دن کا سورج اپنی تمام تر تابناکیوں کے ساتھ امریکہ کی ریاست ٹیکساس (ہیوسٹن) میں طلوع ہوا تھا لیکن کسے خبر تھی کہ اس روشن دن کو ایک روح فرسا خبر، اداس اور تاریک دن میں تبدیل کردے گی۔ اس شب امریکہ کے ٹی وی اور ریڈیو سے یہ خبر آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ پانچ بچوں کی ماں نے اپنے جگر گوشوں کو خود اپنے ہاتھوں سے پانی کے ٹب میں ڈبو کر موت کی گہری نیند سلا دیا۔ ان بچوں کی عمریں نوزائیدہ سے لے کر 7 برس تک کی تھیں۔

37 سالہ اینڈریایٹس زچگی کے بعد کے دورانیہ سے گزر رہی تھی۔ اس کے اب پانچ بچے تھے۔ چرچ کی تعلیمات بچوں کی پیدائش میں قابو کے خلاف تھیں اور اینڈریا اور اس کا میاں رسل مذہب پر سختی سے کاربند تھے۔ اولاد میں وقفہ کی شعوری کوشش مذہبی اعتبار سے جرم و گناہ کے مترادف تھی لیکن افسوسناک پہلو ہر زچگی کے بعد ڈپریشن کی وہ کیفیت تھی کہ جس سے اینڈریا کو گزرنا پڑتا تھا۔ رسل بیوی بچوں کی ضروریات کا ذمہ دار ضرور تھا لیکن وہ مرد تھا لہٰذا زچگی کے پیچیدہ مراحل سے گزرنا اس کا حصہ نہیں تھا، جبھی تو 8 سال کی شادی شدہ زندگی میں پانچ بچوں کا باپ بننا نہ اس کے لئے تشویشناک تھا اور نہ ہی تکلیف دہ، یہ تو اینڈریا کا حصہ تھا جسے وہ ہر پیدائش کے بعد جھیل رہی تھی۔

گو بچے کی پیدائش والدین کے لئے زندگی کا خوبصورت ترین لمحہ ہوتا ہے۔ انبساط اور فخر سے بھرپور لیکن کبھی یہ لمحات مسرت کے احساس سے عاری اور حزن و ملال کی کیفیت سے بھرپور بھی ہوسکتے ہیں۔ اینڈریا بھی ایسی ہی کیفیت سے گزر رہی تھی کہ جس کو طبی اصطلاح میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن (Post Partum Depression) یا بعد از زچگی یاسیت کہا جاتا ہے جس کے کئی درجے ہوتے ہیں جو معمولی ڈپریشن سے لے کر انتہائی دباؤ یا یاسیت کی کیفیت پر محیط ہوسکتے ہیں۔ اینڈریا پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے انتہائی شدید درجے سے گزر رہی تھی کہ جب آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ ایسی ذہنی کیفیت میں اینڈریا کواپنے بچوں کی جان لینے کا ”روحانی حکم‘‘ ملا جو کہتی ہیں کہ یہ بچے بڑے ہو کر گناہ کا ارتکاب کریں گے اور جہنم کی آگ میں جلیں گے لہٰذا ایک محبت کرنے والی ماں نے بدکار اولادوں کا آخرت میں جہنم کی آگ میں جلنے سے بہتر معصومیت کی عمر میں جان لینا مناسب سمجھا اور یوں وہ کچھ ہوا کہ جو عموماً امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے شہری سے متوقع نہ تھا۔

وجوہات:۔ حمل کے دوران زچگی کے بعد ہر عورت کا جسم مختلف طبعی اور جذباتی تبدیلیوں سے گزرتا ہے جس کی وجہ جسم میں ہارمونز کی مقدار میں کمی و بیشی ہوتی ہے مثلاً اسٹروجن اور پروجسٹرون کی مقدار میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن بچے کی پیدائش کے عمل کے بعد چوبیس گھنٹوں کے اندر اس کیمقدار دوبارہ اپنی اصلی حد پر پہنچ جاتی ہے، یعنی وہ مقدار جو حمل سے پہلے جسم میں موجود تھی۔ یہ تبدیلی گو ہر زچہ کے جسم میں واقع ہوتی ہے لیکن کچھ عورتوں میں یہ اچانک تبدیلی ڈپریشن کا مظہر بنتی ہے۔ ان دونوں ہارمونز کے علاوہ تھائی رائیڈ (Thyroid) ہارمون کی مقدار میں بھی خاطرخواہ کمی ہوجاتی ہے۔ (تھائی رائیڈ گردن میں ایک چھوٹا سا گلینڈ ہے) اس کی کمی کی وجہ سے بھی موڈ میں تبدیلی، تھکن، چڑچڑہٹ، بے چینی، کم خوابی جیسی علامات پیدا ہوتی ہیں لیکن ہارمونز کی مقدار میں تبدیلی کے علاوہ بھی کچھ اور عوامل بھی ہیں:

۔ 1 زچگی کے بعد کی تھکن
۔ 2 نیند کا بار بار ٹوٹنا
۔ 3 بچہ ہونے کے بعد اس اعتماد کی کمی کہ شاید یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے نہ پوری کی جاسکے۔

۔ 4 ملازمت پیشہ خواتین میں گھر اور ملازمت کے کاموں میں توازن نہ ہونے کا احتمال، اکثر مائیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ ”سپر ماں‘‘ ہیں اور ہر کام بچہ ہونے کے بعد بھی بہترین انداز میں کرنے کی کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں لیکن جب یہ خوش فہمی ان کی خام خیالی ثابت ہوتی ہے تو نتیجہ شدید ڈپریشن کی صورت ہوتا ہے۔

۔ 5 بچے کی پیدائش کے بعد اکثر خواتین کو اپنی سابقہ شناخت کھو دینے کا شدید احساس ہوتا ہے۔ اپنے حالات پر قابو نہ پانے کی وجہ سے اور جسمانی خوبصورتی کے کھو دینے کا احساس بھی صدمہ کا باعث بن سکتا ہے۔

۔ 6 سماجی اور رشتہ داروں کے تعاون کی کمی
۔ 7 حالاتِ زندگی کی بدحالی مثلاً عدم استحکام اور غربت

پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی یہ کیفیت ہر معاشی حیثیت، نسل، رنگ اور قومیت میں بلاتفریق ہوسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 85 فیصد ماؤں میں زچگی کے بعد مزاجوں میں واضح تبدیلی پیدا ہوتی ہے جو چوتھے پانچویں دن شروع ہو کر دو ہفتہ تک طاری رہ سکتی ہے لیکن یہ تبدیلی مزاج (غم، غصہ، بے چینی، چڑچڑاہٹ) روزمرہ کے فرائض کی انجام دہی میں حرج نہیں پیدا کرتی۔ اس معمولی نوعیت کو طبی اصطلاح میں پوسٹ پارٹم بلیو (Post Partum Blue) کہا جاتا ہے تاہم 10 سے 15 فیصد میں یہ ڈپریشن زیادہ شدید نوعیت کا ہوتا ہے جو ابتدائی تین ماہ میں واقع ہوتا ہے اور خاصی مدت تک طاری رہتا ہے۔ یہ کیفیت واضح طور پر روزمرہ کے کاموں کی انجام دہی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ گو اس کیفیت کی بھی دو اقسام ہیں، ایک کو پوسٹ پارٹم ڈپریشن کہا جاتا ہے جبکہ دوسرے کو پوسٹ پارٹم سائیکوسس (Post Partum Psyehosis) کہا جاتا ہے۔ دونوں میں ہی سوچیں منفی اور شدید ہوتی ہیں لیکن اس کیانتہائی شکل پوسٹ پارٹم سائیکوسس ہزار میں سے صرف ایک یا دو خواتین میں ہی دیکھی جاتی ہے۔ اس کی علامات بچے کی پیدائش کے 48 سے 72 گھنٹوں کے دوران میں پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں آوازوں کا سنائی دینا، شکلوں کا دکھائی دینا اور خودساختہ، بے بنیاد سوچوں کا ذہن پر طاری ہوجانا جیسی علامات واضح ہوتی ہیں، مثلاً بچے سے متعلق یہ سوچ کہ بچہ کوئی برگزیدہ ہستی ہے یا پھر شیطانی خواص کا مالک، بعض دفعہ خودکش یا بچہ کو مار دینے کے احکامات بھی نازل ہونے لگتے ہیں۔ پوسٹ پارٹم سائیکوسس کا احتمال عموماً ان میں زیادہ ہوتا ہے کہ جن کی خاندانی تاریخ میں ڈپریشن یا بائی پولر ڈس آرڈر ہو۔

زچگی میں ڈپریشن کی علامات:
۔ 1 بے چینی، جھنجھلاہٹ
۔ 2 اداسی، مایوسی اور بے اختیار رونا
۔ 3 کم طاقتی کا احساس
۔ 4 کم یا بہت زیادہ غذا کھانا

۔ 5 نیند میں کمی یا قدرے اضافہ
۔ 6 فیصلہ کرنے، یاد رکھنے اور غور کرنے کی صلاحیت میں کمی
۔ 7 بے وقعتی اور ندامت کا احساس
۔ 8 تفریحات سے عدم دلچسپی
۔ 9 رشتہ دار، دوست احباب سے بیزاری
۔ 10 سر اور سینے میں درد، دل کی دھڑکن میں اضافہ، سانس میں تیزی

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2