کیا انصاف اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں؟


مسلم لیگ (ن) کے صدر اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کراچی میں اخباری نمائیندوں کی طرف سے مشہور زمانہ مائنس ون یا مائنس ٹو فارمولا کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ پارٹی کو اس وقت سیاسی مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ ایک طرف قیادت کے خلاف عدالتی مقدمات میں ناخوشگوار فیصلے سامنے آرہے ہیں اور دوسری طرف بہت سے الیکٹ ایبلز پارٹی چھوڑ کر مدمقابل پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ شہباز شریف نے البتہ اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ اگر ان کی پارٹی کو ’برابر ‘ کا موقع ملا تو مسلم لیگ (ن) شاندار کامیابی حاصل کرے گی۔ حکمران پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ دوست کے طور پر پہچانے جانے والے شہباز شریف کے منہ سے یہ بات اس حقیقت کا اشارہ ہے کہ پاکستانی جمہوریت میں اصل فیصلہ بیلٹ بکس کھلنے پر نہیں ہوتا بلکہ اس سے پہلے طے پانے والے معاملات اور ریاست کی بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والی افہام تفہیم کے مطابق ہوتا ہے۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ انتخابات کو مینیج کیا جاتا ہے تاکہ حسب توقع نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ شریف خاندان اس وقت عدالتوں کے علاوہ ’ڈوریاں ہلانے والی سرکار ‘ کے زیر عتاب ہے۔ یہ اشارے بھی کھل کر دیئے جارہے ہیں کہ بہر صورت نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کو نہ تو قومی اسمبلی میں قابل ذکر تعداد میں نشستیں جیتنے دی جائیں گی اور نہ پنجاب میں حکومت بنانے کا موقع مل سکے گا۔ اب شہباز شریف نے انہی اندازوں کی تصدیق کرتے ہوئے یہ اقرار کیا ہے کہ پارٹی کو کامیابی اسی صورت میں ملنے کا امکان ہے، اگر اسے بھی مخالفین کا مقابلہ کرنے کا ایک سا موقع ملے۔ جس ملک میں چیف جسٹس اور آرمی چیف جمہوریت کی گارنٹی دے رہے ہوں ، اور اس ملک کی حکمران اور سب سے بڑی پارٹی کے صدر انتخابات کے تقدس کے بارے میں شبہ کا اظہار کررہے ہوں تو یہ ملک میں جاری نظام کے بارے میں سنگین اور سنجیدہ سوال ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار متعدد مواقع پر واضح کرچکے ہیں کہ وہ نہ صرف وقت پر منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائیں گے بلکہ مارشل لا کے راستے کی دیوار بنیں گے اور جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ وہ کہتے رہے ہیں کہ وہ نظام کو استوار کرنا چاہتے ہیں اسی لئے انہیں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر تشویش ہے اور عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانا وہ اپنی بنیادی اور آئینی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے متعدد حلقوں کی طرف سے کڑی تنقید کے باوجود طبی سہولتوں کی بہتری ، صاف پانی کی فراہمی اور تعلیمی نظام کو منصفانہ بنانے کے لئے ’سو موٹو‘ اختیار کے ذریعے سرکاری عمال اور حکومتی وزرا کی گوشمالی کا سلسلہ جاری رکھا ہؤا ہے۔ وہ ایک سے زائد مرتبہ اپنے سامنے پیش ہونے والے افسروں اور حکومتی وزیروں کو جیل کی ہوا کھانے کی نوید بھی دے چکے ہیں۔ چیف جسٹس کے اس رویہ اور مزاج پر اصول قانون کے تحت بھی سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا کوئی جج کسی معاملہ کی چھان پھٹک کئے بغیر کسی بھی شخص کو سزا دینے یا جیل بھیجنے کی دھمکی دے سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے معاملہ میں تو خاص یہ بھی ہے کہ یہ ایک اپیلیٹ کورٹ ہے جو اپیلوں پر فیصلہ کرتی ہے اور اسے ٹرائل کورٹ کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اسی لئے نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے اگرچہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نااہل قرار دیا لیکن ان کے خلاف بد عنوانی کے مقدمات کی سماعت کا معاملہ نیب عدالت کو سونپا گیا تھا۔ توہین عدالت کے معاملہ میں سزا دینے کے محدود اختیار کے تحت براہ راست سزا دینے کے علاوہ سپریم کورٹ کسی مقدمہ میں براہ راست سزا دینے کی مجاز نہیں ہے۔ گو کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے طور پر وہ کسی بھی سزا کو ختم کر سکتی ہے یا اس میں کمی یا اضافہ کرسکتی ہے۔ تاہم اس مقصد کے لئے کسی مجرم کا کسی زیریں عدالت سے سزا یافتہ ہونا شرط ہے۔

سپریم کورٹ نے گیارہ برس قبل کامیابی سے شروع ہونے والی بحالی عدلیہ تحریک کے بعد سے آئین کی شق 184 (3) کے تحت سیاسی اور انتظامی معاملات میں براہ راست مداخلت کی ایک نئی روایت کا آغاز کیا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اسی شق کا سہارا لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کی حکومت کا ناطقہ بند رکھا اور اب چیف جسٹس ثاقب نثار کی سرکردگی میں سپریم کورٹ ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں سو موٹو لینا ضروری سمجھتی ہے۔ اس کی دلچسپ مثال آج دیکھنے میں آئی ہے جب سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے نواز شریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقریروں پر پندرہ روز کی عبورری پابندی کے معاملہ پر بھی سو موٹو لینا ضروری سمجھا اور اس مقدمہ کی ساری دستاویزات طلب کی ہیں۔ یہ ایک علیحدہ اور قانونی بحث ہے جو آج نہیں تو کل کسی منطقی انجام کو پہنچانا ہو گی تاکہ یہ طے ہو سکے کہ ملک میں کون حکمران ہے اور کون سا ادارہ یا فرد کس معاملہ میں حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس وقت سوال یہ ہے کہ جو عدالت براہ راست ٹرائل کرنے اور سزا دینے کی مجاز نہیں ہے وہ اپنے سامنے پیش ہونے والے اعلیٰ حکام اور سیاست دانوں کو جیل جانے کی خبر کیسے سنا سکتی ہے۔

 اصولی طور پر کوئی بھی عدالت کسی بھی مجرم کو خواہ اس نے قتل جیسے گھناؤنا جرم ہی کیوں نہ کیا ہو، مروجہ قوانین کے تحت سزا تو دے سکتی ہے لیکن مجرم کی عزت نفس پر حملہ نہیں کرسکتی۔ سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے سرکاری عہدیداروں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے توہین آمیز سلوک اور دھمکی آمیز لب و لہجہ سے یہ بات طے نہیں ہوتی کہ ملک میں اب قانون سب پر یکساں طور سے نافذ ہو گا بلکہ یہ واضح ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج آئین اور قانون کی تشریح پر اتھارٹی ہونے کے حق کو یوں استعمال کررہے ہیں کہ قانون بنانے کا مقصد فوت ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ’خود پسندی‘ کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے کل وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگ زیب کو محض اس لئے پیمرا چیئرمین منتخب کرنے والی چھ رکنی کمیٹی سے علیحدہ کرنے کا حکم دیا کہ ’انہیں سیاسی بیانات دینے سے ہی فرصت نہیں ہے‘۔ یہ کمیٹی وزیر اعظم کی منظوری کے بعد پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز کی سرکردگی میں بنائی گئی تھی۔ اس حکم سے چیف جسٹس نے یہ واضح کیا کہ وہ خود کو وزیر اعظم کا نگران سمجھتے ہیں اور ان کی غلطیوں کی اصلاح کا حق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس حکم سے چیف جسٹس کی زود رنجی بھی عیاں ہے۔ مریم اورنگ زیب ایک سیاسی رہنما ہیں، ان کا سیاسی بیان دینا فطری ہے لیکن چیف جسٹس کو اپنے عمل اور ریمارکس کے ذریعے سیاسی ہونے کا تاثر قائم کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

اسی صورت میں چیف جسٹس ملک کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے صدر کی اس التجا پر غور کرسکیں گے کہ انہیں بھی انتخابات میں مساوی موقع ملنا چاہئے۔ چیف جسٹس کو یہ دیکھنا اور طے کرنا ہو گا کہ ووٹروں کے علاوہ کون لوگ ہیں جو سیاسی پارٹیوں میں مائنس ون کو نافذ کرواتے ہیں، پھر الیکٹ ایبلز کو ایک مخصوص پارٹی میں شامل ہونے کا مشورہ دیتے ہیں اور ملک میں تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود یہ بات عام کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ مستقبل کا سیاسی منظر نامہ ان کی مرضی و منشا کے مطابق ہی تشکیل پائے گا۔ اگر ملک کی’ سپر ہائیپر ‘ سپریم کورٹ انتخابات سے پہلے اس سوال کا شافی جواب تلاش کرکے شہباز شریف کے علاوہ ملک کے دس کروڑ کے لگ بھگ ووٹروں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب نہیں ہوتی کہ ملک کے آئین کے مطابق اس ملک میں جمہوری نظام قائم ہے اور اس نظام میں فیصلہ لوگوں کے ووٹ ہی کریں گے ،کسی نیم روشن کمرے میں بیٹھے اسکرپٹ رائیٹر کی خواہش کے مطابق سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہو گی۔ اور اگر یہ یقین دہانی سامنے نہیں آتی تو چیف جسٹس کا یہ دعویٰ کہ وہ ہر غیر آئینی کام کے راستے میں دیوار بنیں گے ، لفاظی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکے گا۔ اور یہ افسوسناک تاثر قوی ہو گا کہ ملک میں انصاف اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ کیوں کہ قومی مفاد کے نام پر ’انصاف فراہم کرنے اور بدعنوانی سے نجات‘ پانے کے لئے جمہوریت کا خون ہوتا سب ہی دیکھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali