وادی کشمیر کی اسیری اور اس کے عوامل 


\"nylaعوام کو یرغمال رکھنا، سیاسی میدان کو مجرمانہ بنانا، نفسیاتی بیماریاں پیدا کرنا، لوگوں کو اس طرح مجبور کردینا کہ وہ زندگی کی ضروریات کی جانب بے حسی اختیار کر لیں، نوجوان نسل کو اس طرح ‌اپاہج کر دینا کہ وہ اپنی توانائی کو خرچ کرنے کے لئے کوئی صحت مندانہ راستہ اختیار نہ کرسکیں۔ سری نگر میں زندگی منجمد کر دی گئی ہے۔ غیر مستحکم علاقوں میں انتہائی خراب ٹریفک ہے جس کو نیم خوابیدہ پولیس کنٹرول کرنے میں‌ قطعاََ ناکام ہے۔ زندگی ایسے احکامات کے گرد گردش کر رہی ہے جن کو بندوق لہرانے والے افراد نے جاری کیا۔ بھاگتے ہوئے سیاح جن کے چہروں پر تشویش باآسانی دیکھی جاسکتی ہے، جہاں ‌عام شہری کو مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ ان لوگوں‌ کے اشاروں پر ناچیں جو شاندار شہادت چاہتے ہیں، ایک مفرور حکومت جو متحدہ سیاست کی شوریدہ لہروں کے آگے بے بس نظر آتی ہے اور مرکزی دهارے کے سیاستدان اور علیحدگی پسند جو اپنی ذمہ داریوں سے نظریں چرا کر پر آسائش زندگی گزارنے میں مصروف ہیں۔

نوجوان شاگردوں، پیشہ ور اور عام افراد کے چہروں‌ پر اداسی لکھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ بامقصد زندگی کے فقدان اور خوف و شک کے اپاہج کرنے والے ماحول میں‌ گھری ہوئی آبادی کی آواز ان نظریاتی عناصر نے دبا دی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ محض وہ ہی حق بجانب ہیں۔ ریاست کی سرپرستی میں‌ پلنے والے مذہبی آزادی کے خود ساختہ ٹھیکے داروں کی سازش، اتحادی حکومتوں کی نااہلی اور کشمیر کے شورش زدہ ماحول میں جاری جارحانہ تشدد کے درمیان سیاست دانوں کو محض چند دہشت گردوں کا سہارا درکار ہوتا ہے جن کے بل بوتے پر وہ عوام کی آواز نظر انداز کر کے الٹے سیدھے فیصلے جاری کریں۔ قوم پرستی اور سیاسی اسلام کی زبان کی نظر اندازی، فوجی کلچر کے باعث کشمیر کی تباہی اور قابل مذمت حکومت کے ہاتھوں‌ علاقے کی بربادی قابل افسوس ہیں۔ ہمیں زندگی کے زیاں، جمہوری اداروں اور ذاتی عزائم کی خستہ حالی، سماجی اور تہذیبی تانے بانے کے بکھرنےاور جان بوجھ کر عوام کو پسماندہ رکھنے کی سازش پر افسوس ہے جو کہ پچھلی دو دہائیوں سے جاری ہے اور اس میں مزید شدت آئی ہے۔

میری کتاب \”اسلام، خواتین اور کشمیر میں‌ تشدد\” کو پڑھنے کے بعد سیاسی نفسیات دان آشس آنندی نے درست مشاہدہ کرتے ہوئے کہا کہ \”کشمیر میں‌ ہر کوئی رنجیدہ ہے اور سبھی سوگ میں‌ ہیں۔\” جس کے شکار نہ صرف وہ سرکاری اور غیر سرکاری افراد ہیں‌ جو اس دنیا سے گذر چکے ہیں بلکہ وہ بھی جو بغیر کسی نشان کے غائب ہو گئے۔ کشمیر میں‌ ایک غمزدہ ماحول ہے جس نے سبھی کو اپنی لپیٹ میں‌ لیا ہوا ہے سوائے ان لوگوں‌ کے جو کشمیر کے خوبصورت ماحول میں‌ سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔

لیکن کیا یہ صدمہ ہمیں‌ اس طرح‌ لاچار کر سکتا ہے کہ ہم اپنے لئے ایسا کوئی خواب نہ دیکھ سکیں‌ جس میں‌ کشمیر کو جنوبی ایشیا میں‌ ایک جمہوری ریاست بنایا جاسکے؟ اگر کشمیر محض ایک سیاسی مسئلہ ہوتا جیسا کہ کئی مرکزی دھارے کے سیاست دان کچھ عرصہ سے کہتے آئے ہیں تو الیکشن سے لائی گئی سویلین حکومت کا اس میں‌ کوئی کردار نہ رہ جاتا۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ اتحادی حکومت کو کشمیر کے انتہائی پیچیدہ معاملے میں‌ اپنے کردار کا ادراک نہ ہو۔ کیا اس مسئلے کے مزید پیچیدہ ایسے پہلو نہیں‌ ہیں جن کے لئے عوام نے اپنے رہنماؤں کو چن کر بھیجا تھا تاکہ وہ نئی دہلی کے باعزت آقاؤں تک عوام کی آواز پہنچا سکیں؟

کشمیر کا مسئلہ قومی اور مذہبی شدت پسندی سے بھڑکا ہوا ہے، جس میں‌ ہر فریق دوسرے کے تشدد اور ناانصافی اور اپنے دکھ درد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا نظر آتا ہے۔ عدم اعتماد، شبہات اور دماغی توازن کے بگڑے ہونے کی فضا نے جموں‌ و کشمیر اور انڈین یونین کے افراد کے درمیان تعلقات پر منفی اثر ڈالتے ہوئے اس تنازعے کو ہوا دی ہے۔ 1990 سے لے کر ریاست میں‌ گوریلا جنگ کئی ادوار سے گذری لیکن سیاسی اور فوجی طاقتیں‌ ایک ظالمانہ حقیقت رہی ہیں جن کو بظاہر جمہوری خیالات اور امیدوں‌ کے ساتھ نظر انداز نہیں‌ کیا جا سکتا ہے۔ جموں و کشمیر میں‌خود مختاری اور سیاسی مخالفت کی منظم تباہ کاری نے اختلاف رائے کو غیر قانونی بنا کر ریاستی اداروں‌ اور تنظیموں‌ کی مخالفت کو ہوا دی ہے۔

حالانکہ جموں‌ و کشمیر میں‌ مسلح شورش جس نے ریاستی عوام سے انتہائی قربانی وصول کی ہے، جمہوریت اور انسانی حقوق کی پامالی، سماجی اور معاشی احساس محرومی اور عوام کی مرضی کو پس منظر میں‌ دھکیل دینے سے شروع ہوئی تھی لیکن ہم ان مسائل پر ہم ہمیشہ کے لئے رونے دھونے میں‌ نہیں‌ پڑ سکتے ہیں۔ بغاوت نے اس لئے جنم لیا کیونکہ بهارت سیاسی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا لیکن اس کو نہ صرف انڈین آرمی کی جارحانہ کارروائیوں نے بلکہ علیحدگی پسند مسلح اسلامی شدت پسندوں‌، پاکستان کے علاقائی عزائم اور منتخب حکومت کی نااہلی نے زندہ رکھا۔ مسلح شورش میں‌ انڈین آرمی کو بلا احتساب مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے۔ جیسا کہ حالیہ واقعات سے ظاہر ہے، جموں‌ و کشمیر کی پارلیمنٹری طاقتیں بھی اندھا دھند ایک بلا مہار توپ کی طرح کام کرتی دکھائی دیتی ہیں‌ جن کے خوف سے کوئی کچھ سوال نہیں‌ کر سکتا۔

جموں و کشمیر میں‌ نئی دہلی کی حکمت عملی کو افغانستان میں‌ امریکی جارحیت کی حمایت حاصل تھی جس میں‌ پاکستان کے اندر اس کے ارد گرد امریکی فوج پاکستانی جارحیت کو محدود رکھنے کے لئے موجود تھی۔ انڈیا کو امریکہ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ پاکستان کو کسی بھی ایسی جارحانہ کاوش سے روکے گا جس سے اس کے القاعدہ اور طالبان کے خلاف آپریشن پر اثر پڑے۔ اس کے علاوہ پاکستانی ائیر بیسوں‌ میں امریکیوں کے شامل ہونے سے نئی دہلی کے اعتماد میں‌ اضافہ ہوا کہ اسلام آباد نیوکلئر ہتھیار استعمال کرنے میں‌ ہچکچائے گا۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں نے اس کی فوج کو ایسی طاقت فراہم کی جس سے کشمیر کی وادی کی مسلم اکثریت کی ناراضگی کا استحصال کیا جاسکے۔ پاکستان کے فوجی رہنما خفیہ طور پر اس بات پر یقین رکھتے ہیں‌ کہ یہ ایٹمی ہتھیار ہی ہیں‌ جن کی وجہ سے انڈیا ان سے ایک بڑے پیمانے کی جنگ لڑنے سے گریزاں ہے۔ انڈیا کا محتاط رویہ حالانکہ کئی دیگر عوامل پر منحصر ہے۔ اس کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ ایک محدود جنگ اس کو اس لائق نہیں‌بنا پائے گی کہ وہ کوئی گراں قدر سیاسی یا فوجی مقاصد حاصل کر سکے۔ یہ بات بھی تشویش ناک ہے کہ جنگ چھڑ گئی تو وہ قابو سے باہر بھی ہو سکتی ہے جس کو انتظامیہ یا فوج کی مرضی سے روکا نہ جا سکے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انڈیا کو دیگر ممالک ناپسندیدگی سے دیکھیں‌ اور یہ لڑائی بڑھ کر ایٹمی جنگ میں‌تبدیل ہو جائے۔ ایسی اچانک ہو جانے والی ایٹمی جنگ کی فکر ان عوامل میں‌شامل ہے جن کی وجہ سے ساؤتھ ایشیا کے علاقے میں‌ بظاہر مستقل حالات قائم رکھنے کی ضرورت سمجھی گئی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں کے نیوکلئیر پروگرام کی سیڑھیاں‌چڑھنے کی وجہ سے علاقائی استحکام متاثر ہوا ہے جس کو مسئلہ کشمیر نے مزید ہوا دی۔ کشمیر میں‌ مسلح شورش، انڈیا اور پاکستان کے نظریاتی اختلافات اور ان کے سیاسی کٹر پن سے بحران میں محض اضافہ ہی ہوا ہے۔

یہ ستم ظریفی ہے کہ جموں و کشمیر کے مرکزی دھارے کے سیاست دانوں ‌اور علیحدگی پسندوں نے سیاسی، سماجی یا مذہبی حلقوں‌ میں ‌اعلیٰ‌ عہد داران کے درمیان جگہ تلاش نہیں کی ہے۔ نئی دہلی ان کو ایک محدود دائرے میں محتاط رہتے ہوئے ہاتھ پیر مارنے کی اجازت تو دیتی ہے لیکن جہاں تک تمام عزائم اور مقاصد کا معاملہ ہے، ان کی انڈیا اور پاکستان کے مابین باہمی مزاکرات میں‌ کوئی جگہ نہیں‌ ہے۔ قوم کی تعمیر اور کشمیریوں کی فلاح و بہبود پر تو کوئی پارٹی کام کرتی دکھائی نہیں‌ دیتی۔ کشمیری سوسائٹی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس طرح‌ کے موقع پرست عناصر کو پہچانیں‌ جو ان کی نظریاتی اور تجرباتی طاقتوں پر گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ کب تک ایسے افراد کشمیریوں کے مضروب جذبات کے ترجمان بن کر سامنے آتے رہیں‌ گے جن کو کشمیر کی تاریخ اور مسائل کا کچھ ادراک نہیں؟ کب تک ایسے لوگ کشمیر کے سیاسی مستقبل کا نقشہ بناتے رہیں‌ گے جو اس کے تاریخی ورثے سے ناواقف ہیں؟ کشمیر کے سیاسی میدان کی تعمیر نو آج کے دن کی ضرورت ہے۔

1931 میں‌ کشمیریوں‌ کی سیاسی تحریک اور 1946 کی آتش فشانی \”کشمیر سے نکلو\” تحریک کے باوجود حالات کا جارحانہ رخ ‌اختیار کر لینا کافی اچانک ہوا ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی 1931 میں‌ مطلق العنانیت اور حملے نے کشمیریوں‌ کو نیند سے جگایا اور ان کو شہنشاہیت کی جکڑ اور غلامی کے پنجرے سے آزادی حاصل کرنے پر ابھارا۔ کشمیر کے عام افراد سیاسی جدوجہد میں‌ شریک ہوگئے اور انہوں‌ نے سیاست کو محض اشرافیہ کا میدان بننے سے روکا۔ 1946-1947 کی \”کشمیر سے نکلو\” کی تحریک سے کشمیری نہ صرف سیاست کے میدان میں‌ تعلیم یافتہ ہوئے اور منظم احتجاج سیکھا بلکہ کشمیر کی قومی شناخت کے حصول میں رہنما بھی بنے۔ لیکن کشمیری شہریوں‌ کی آواز کو دبا دینے کی ریاستی اور کچھ غیر ریاستی کوششیں‌ پہلے سے کہیں زیادہ ہونے لگی ہیں۔

)مترجم: ڈاکٹر لبنیٰ مرزا   تصحیح ترجمہ : ڈاکٹر خرم نیازی(

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments