سیکولر حضرات کے کچھ مزید مغالطے


\"mujeebبرادر سمیع اللہ سعدی نے سیکولر حضرات کے دس مغالطے اہلِ علم و فضل اور مجھ جیسے کم علم قارئین کے استفادے کی غرض سے ارزاں فرماۓ ہیں۔ اس پر تشکر واجب ہے۔ تاہم شکوہ یہ ھے کہ اس جامع تحریر کے براہین قاطع سے متعدد نئے مغالطے پیدا ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر ان سوالات کے جواب بھی مل جائیں تو سیکولر حضرات کے حقیقی معنوں میں دانت کھٹے کئے جا سکیں گے۔

1۔ ’’سیکولر ازم کی بحث میں مسلم سیاسی افکار میں سے ایک فکر پر تنقید یا اس کے نقائص کی نشاندہی‘‘۔۔۔۔ ’’اس لیے خوب سمجھنا چاہیے مودودی صاحب کی سیاسی فکر بے شمار مسلم سیاسی مفکرین میں سے ایک مفکر کی تعبیر ہے، اسے ’اسلامی سیاسی فکر‘ کے مترادف سمجھنا پہلا مغالطہ ہے۔‘‘ ۔ مسلم سیاسی فکر سے آپ کی کیا مراد ہے اور ہم اس کے بارے میں کہاں سے جان سکتے ہیں؟ یا وہ کون سا مسلم مفکر ھے جس کی پیش کردہ تعبیر کو آپ مسلم سیاسی فکر کہہ رھے ہیں؟

2۔ ’’خارجی سیاسی فکر‘ کو ’اسلامی سیاسی فکر‘ سمجھنا دوسرا مغالطہ ہے “۔۔۔۔ مین سٹریم اسلامی مکاتب اسے صدیوں پہلے رد کر چکے ہیں۔‘‘ فرمایۓ گا کہ مین سٹریم اسلامی مکاتب فکر نے کون سی اسلامی سیاسی فکرکو متفقہ طور پرقبولیت سے سرفراز کیا ھے؟

3  – ’تھیوکریسی‘ اور ’اسلامی سیاسی فکر‘ کو مترادف سمجھنا تیسرا مغالطہ ہے۔۔۔۔”اسلام کی ٹھیٹھ سیاسی فکر اور مذہبی پاپائیت میں اتنا ہی بعد ہے جتنا کہ خود سیکولر ازم اور اسلام میں ہے۔‘‘۔ یہ کون سی ٹھیٹھ سیاسی اسلامی فکر ھے جس کی جانب آپ اشارہ فرما رھے ہیں؟

۔4 – ’مسلم سیاسی فقہ میں ذمی اور جزیہ کے تصور کو ’دوسرے درجے کی شہریت‘ کے مترادف سمجھنا چوتھا مغالطہ ہے‘۔ ان ’ ٹھیٹھ اسلامی سیاسی اصطلاحات‘ سے بھی سیکولر حضرات کو آگاہ فرمایئے جن سے انہیں علم ھو جائے کہ اسلامی ریاست میں ذمی اور جزیہ کا اصل تصور ویسا نہیں جو وہ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ھے جو آپ سمجھ رھے ہیں۔ کسی کے تصور کو غلط کہہ دینا کافی نہیں ھوتا، درست تصور کی نشاندہی بھی ضروری ھے۔ تاکہ آپ کا فریقِ مخالف ’اُس تصور‘ کے حوالے سے اپنے دلائل سامنے لائے اور غیر جانبدار قارئین کو استفادے کا موقع میسر آئے۔

5۔ ’’سیکولر ازم کو ’عدم محض‘ سمجھنا پانچواں مغالطہ ہے،سیکولر ازم خود ایک مذہب، ایک فکر اور ایک ضابطہ ہے‘‘۔ یہ سیکولرازم اگر ایک مذہب ھے تو اس کا ایک خدا بھی ھوگا جس کی یہ سیکولر حضرات بندگی/ پرستش کرتے ھوں گے۔ از راہِ کرم اس بارے میں آگاہ فرمایئے تاکہ ھماری راہنمائی ھو۔۔۔۔۔ مزید یہ کہ ’عدم محض‘ یا ’لا نفرق بین احد‘ (البقرہ 285) کہنے سے کیا کوئی نیا مذہب تخلیق ھو جاتا ھے؟ ذرا یہ بھی فرمایئے کہ رحمِ مادر میں کس مذہب کا نظام کار فرما ھوتا ھے جو کسی مذہبی تفریق کو در خور اعتناء نہیں گردانتا اور کسی اقلیتی یا اکثریتی گروہ کی طرفداری نہیں کرتا۔ اسلامی یا کسی بھی اچھی ریاست کا یہی حقیقی تصور ھونا چاہیئے (احقر کی راۓ ھے، جانے آپ متفق ھوں یا نہ ھوں)

6 ۔ ’اسلام اور سیکولر ازم کے اجتماع کو ممکن سمجھنا چھٹا مغالطہ ہے‘۔ آپ نے اسلام اور سیکولر ازم کو مد مقابل گردانا ھے، یہ آپ کا مغالطہ ھے۔ اگر آپ یہ فرمائیں کہ مذہب اور سیکولر ازم کے اجتماع کو ممکن سمجھنا۔۔۔ تو بات قدرے واضح اور دوسرے مذاہب کو بھی محیط ھو جائے گی، اور تب آپ کی نگاہ اس امر پر بھی جائے گی کہ بھارت میں مسلم علما کی ایک تعداد سیکولرازم کی حمایت کرتی ھے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ھے؟

7۔ ’مسلم سیاسی فقہ کے بعض مسائل کی جدید جمہوری ریاستوں میں تطبیقی مشکلات سے ’اسلامی ریاست‘ کے عدم امکان کا نتیجہ نکالنا ساتواں مغالطہ ہے‘۔  ھم کم علم قارئین کی تفہیم کے لۓ ارشاد فرمایئے کہ مسلم سیاسی فقہ کے وہ کون سے بعض مسائل ہیں جن کو جدید جمہوری ریاستوں میں ’تطبیقی مشکلات‘ کا سامنا ھے؟ اور وہ کون سی جدید جمہوری ریاستیں ہیں؟

8۔ ’مذہبی شخصیات، ادارے اور جماعتوں کے طرز عمل اور طریقہ کار میں نقائص سے اسلامی ریاست کی خامیوں پر استدلال آٹھواں مغالطہ ہے‘ آپ کا یہ آٹھواں مغالطہ تو عجب حیرانیاں اپنے جلو میں لئے ھوۓ ہے۔ حضور، اگر مذہبی شخصیات، اداروں اور جماعتوں کے طرزِ عمل اور طریقۂ کار کے حسن و قبح، خصائص یا نقائص پر نقد و جرح نہیں ھوگی تو کسی بھی نظریاتی یا مذہبی ریاست کی کارکردگی (کامیابی یا ناکامی کے تخمینے) جانچنے کے پیمانے کیا ھوں گے؟

9۔ ’’خلافت کے ادارے کے ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت سے ’اسلامی ریاست‘ کی ناکامی پر استدلال نواں مغالطہ ہے‘‘ آپ نے درست فرمایا۔ تاہم نشاندہی فرمایئے گا کہ ’ریاست کا اسلامی بنیادی اصولوں کے مطابق ہونا ضروری ہے چاہے اس کی شکل جو بھی ہو اور اس کا جو بھی نام رکھا جائے‘۔ سے آپ کی کیا مراد ھے؟ اگر آپ مثالوں سے واضح فرما دیں تو ہم کم سواد، کم نظر تلامیذ کی احسن  طور پر رہنمائی ہو سکے گی

10۔ ’اسلامی سیاسی فقہ کے اٹل اور منصوص احکام، کلیات اور قواعد کلیہ کو جزیاتی مسائل، عارضی احکام، عرف پر مبنی فیصلے اور فقہا کے مستنبط اجتہادی مسائل کے ساتھ خلط کرنا دسواں مغالطہ ہے‘۔ اسلامی سیاسی فقہ کے ’ان اٹل اصولوں اور کلیات‘ کی نشاندہی بھی فرما کر شکریے کا موقع دیجئے۔۔۔

محترم بخت محمد برشوری نے بجا فرمایا ھے کہ ’اس حوالے سے مزید لکھنے کی ضرورت ہے ۔ ایک ایک مغالطے پر تفصیلی کلام کیا جانا چاہیے ۔‘ ۔ امید ھے کہ آپ اپنے گنجینہ فکر کے گہر ھاۓ علم سے فیض یاب فرمائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
38 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments