پھوجا حرام دا


بڑی معصوم سی شرارت تھی مگر پولیس نے اسے وہ مارا وہ مارا کہ مار مار کر ادھ موا کردیا۔۔۔ اور ایک دن یہ خبر آئی کہ پھوجا سلطانی گواہ بن گیا ہے اُس نے وعدہ کر لیا ہے کہ سب کچھ بک دے گا۔

کہتے ہیں اس پر بڑی لعن طعن ہوئی اُس کے دوست ملک حفیظ نے بھی جو حکومت سے بہت ڈرتا تھا اُس کو بہت گالیاں دیں کہ حرام زادہ ڈر کے غدار بن گیا ہے معلوم نہیں اب کس کس کو پھنسائے گا۔

بات اصل میں یہ تھی کہ وہ مار کھا کھا کے تھگ گیا۔ جیل میں اُس سے کسی کو ملنے نہیں دیا جاتا تھا ، مرغن غذائیں کھانے کو دی جاتی تھیں مگر سونے نہیں دیا جاتا تھا۔ کم بخت کو نیند بہت پیاری تھی اس لیے تنگ آ کر اُس نے سچے دل سے وعدہ کر لیا کہ بم بنانے کی سازش کے جملہ حالات بتا دے گا۔

یوں تو وہ جیل ہی میں تھا مگر اب اس پر کوئی سختی نہ تھی کئی دن تو اُس نے آرام کیا کہ اُس کے بند بند ڈھیلے ہو چکے تھے اچھی خوراک ملی بدن پر مالشیں ہوئیں تو وہ بیان لکھوانے کے قابل ہوگیا۔

صبح لسی کے دو گلاس پی کر وہ اپنی داستان شروع کر دیتا تھوڑی دیر کے بعد ناشتا آتا۔ اس سے فارغ ہو کر پندرہ بیس منٹ آرام کرتا اور کڑی سے کڑی ملا کر اپنا بیان جاری رکھتا۔

آپ محمد حسین اسٹینو گرافر سے پوچھیے جس نے اس کا بیان ٹائپ کیا تھا۔ اُس کا کہنا ہے کہ پھوجے حرامدے نے پورا ایک مہینہ لیا اور وہ سارا جال کھول کر رکھ دیا جو سازشیوں نے ملک کے اس کونے سے اُس کونے تک بچھایا تھا یا بچھانے کا ارادہ رکھتے تھے اس نے سینکڑوں آدمیوں کے نام لیے۔ ایسی ہزاروں جگہوں کا پتا بتایا جہاں سازشی لوگ چھپ کے ملتے تھے اور حکومت کا تختہ اُلٹنے کی ترکیبیں سوچتے تھے۔

یہ بیان محمد حسین اسٹینو گرافر کہتا ہے فل اسکیپ کے ڈھائی سو صفحوں پر پھیلا ہوا تھا جب یہ ختم ہوا تھا تو پولیس نے اُسے سامنے رکھ کر پلان بنایا۔ چنانچہ فوراً نئی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور ایک بار پھر پھوجے کی ماں بہن پُنی جانے لگی۔

اخباروں نے بھی دبی زبان میں پھوجے کے خلاف کافی زہر اُگلا۔ اکثر حکام کے خلاف تھی اس لیے اُس کی غداری کی ہر جگہ مذمت ہوتی تھی۔ وہ جیل میں تھا جہاں اُس کی خوب خاطر تواضح ہو رہی تھی۔ بڑی طرّے والی کلف لگی پگڑی سر پر باندھے دوگھوڑے بوسکی کی قمیص اور چالیس ہزار لٹھے کی گھیرے دار شلوار پہنے وہ جیل میں یوں ٹہلتا تھا جیسے کوئی افسر معائنہ کررہا ہے

جب ساری گرفتاریاں عمل میں آگئیں اور پولیس نے اپنی کارروائی مکمل کر لی تو ، سازش کا یہ معرکہ انگیز کیس عدالت میں پیش ہوا۔ لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔

پولیس کی حفاظت میں جب پھوجا نمودار ہوا تو غصے سے بھرے ہوئے نعرے بلند ہوئے۔

’’پھوجا حرام دا امردہ باد پھوجا غدار مردہ باد۔‘‘

ہجوم بہت مشتعل تھا خطرہ تھا کہ پھوجے پر نہ ٹُوٹ پڑے اس لیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا جس کے باعث کئی آدمی زخمی ہوگئے۔ عدالت میں مقدمہ پیش ہوا۔ پھوجے سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ اس بیان کے متعلق کیا کہنا چاہتا ہے جو اُس نے پولیس کو دیا تھا تو اُس نے لا علمی کا اظہار کیا۔

’’جناب میں نے کوئی بیان ویان نہیں دیا۔ ان لوگوں نے ایک پلندہ سا تیار کیا تھا جس پر میرے دستخط کروا لیے تھے۔‘‘

یہ سُن کر انسپکٹر پولیس کی بقول پھوجے کے ’’ بھنبھیری بھول گئی ‘‘ اور جب یہ خبر اخباروں میں چھپی تو سب چکرا گئے کہ پھوجے حرامدے نے یہ کیا نیا چکر چلایا ہے۔

چکر نیا ہی تھا کیونکہ عدالت میں اُس نے ایک نیا بیان لکھوانا شروع کیا جو پہلے بیان سے بالکل مختلف تھا یہ قریب قریب پندرہ دن جاری رہا جب ختم ہوا۔ تو فل اسکیپ کے 158 صفحے کالے ہو چکے تھے۔ پھوجے کا کہنا ہے کہ اس بیان سے جو حالت پولیس والوں کی ہوئی ناقابلِ بیان ہے۔ انھوں نے جو عمارت کھڑی کی تھی کم بخت نے اُس کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر رکھ دی۔

سارا کیس چوپٹ ہوگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سازش میں جتنے گرفتار ہوئے تھے ان میں سے اکثر بری ہوگئے۔ دو تین کو تین تین برس کی اور چار پانچ کو چھے چھے مہینے کی سزائے قید ہوئی۔

جو سُن رہے تھے ان میں سے ایک نے پوچھا۔ ’’ اور پھوجے کو ؟‘‘ مہر فیروز نے کہا۔ ’’ پھوجے کو کیا ہونا تھا وہ تو وعدہ معاف یعنی سلطانی گواہ تھا ‘‘

سب نے پھوجے کی حیرت انگیز ذہانت کو سراہا کہ اُس نے پولیس کو کس صفائی سے غچہ دیا۔ ایک نے جس کے دل و دماغ کو اس کی شخصیت نے بہت زیادہ متاثر کیا تھا مہر فیروز سے پوچھا ’’ آج کل کہاں ہوتا ہے؟‘‘

’’یہیں لاہور میں آڑھت کی دُکان ہے‘‘ اتنے میں بیرہ بل لے کر آیا اور پلیٹ بھی فیروز کے سامنے رکھ دی، کیونکہ چائے وغیرہ کا آرڈر اُسی نے دیا تھا۔ پھوجے کی شخصیت سے متاثر شدہ صاحب نے بل دیکھا اور اُن کا آگے بڑھنے والا ہاتھ رُک گیا کیونکہ رقم زیادہ تھی چنانچہ ایسے ہی مہر فیروز سے مخاطب ہوئے۔

’’ آپ کے اس پھوجے حرامدے سے کبھی ملنا چاہیے ‘‘

مہر فیروز اُٹھا ’’آپ اس سے مل چکے ہیں۔ یہ خاکسار ہی پھوجا حرامدا ہے۔ بل آپ ادا کر دیجیے گا۔ السلام علیکم ‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3