تپسی تے ٹھس کرسی۔ غیر سینسر شدہ کالم


کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا مقصد پورا ہوا مگرعالی مرتبت شاہ جی کے فرمان عالیشان کے مطابق میں تو اللہ کی لاٹھی کے چلنے کا انتظار کر رہا ہوں جو حرکت میں آئے اور مودی کا غرور خاک میں ملا دے۔ مجھے قبلہ شاہ جی کی بات پر مکمل بھروسا اورا عتماد ہے لیکن کیا کروں بعض تاریخی حقائق ایمان متزلزل کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ فرانسیسی کمانڈر ژواین ویل جو بذات خود صلیبی جنگوں میں شریک رہا، اس نے 13 ویں صدی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان لڑائی کی سرگزشت بیان کی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

یہ وہ دور تھا جب یورپ کو ”پامردی مومن“ پہ بھروسا تھا اور مسلمان ”مشینوں“ پر انحصار کیا کرتے تھے۔ مسیحی محض دعاؤں کے سہارے برسرپیکار تھے اور مسلمان جدید جنگی ہتھیاروں سے لیس ہو کر لڑتے۔ ایک لڑائی کے دوران جب مصری فوج نے منجنیقوں کے ذریعے فرانسیسیوں پر آگ برسانا شروع کی توانہوں نے اس بلا سے نجات پانے اور دشمن کاغرور خاک میں ملانے کے لئے اللہ کی بے آواز لاٹھی کو آواز دی۔ ژو این ویل بیان کرتا ہے : ”ہمارا لارڈ والٹر جو ایک اچھا نائٹ تھا، اس نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں زندگی کا سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے اگر ہم نے ان برجیوں کو نہ چھوڑا، اور مسلمانوں نے ان میں آگ لگا دی تو ہم بھی جل کر خاک ہو جائیں گے لیکن اگر ہم ان برجیوں کو چھوڑ کر نکل جاتے ہیں تو ہماری بے عزتی میں کوئی شبہ نہیں۔

ایسی حالت میں خدا کے سوا کوئی نہیں جو ہمارا بچاؤ کر سکے۔ میرا مشورہ آپ لوگوں کو یہ ہے کہ جونہی مسلمان آگ کے گولے پھینکیں، آپ سب گھٹنوں کے بل جھک جائیں اور اپنے نجات دہندہ خداوند سے دعا مانگیں کہ اس مصیبت میں ہماری مدد کرے ”ژو این ویل نے فرانسیسی بادشاہ لوئس کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ جب منجنیق سے گولے پھینکے جانے کے بعد سپاہیوں کی چیخ و پکار کی آواز آتی تو ہمارا ولی صفت بادشاہ روتے ہوئے دست دعا بلند کرتا اور کہتا، خدائے مہربان میرے آدمیوں کی حفاظت کر۔ اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلا اور خدا نے کس کی مدد کی، یہ کوئی سربستہ راز نہیں۔

زمانے نے کروٹ بدلی، یورپ نے اس شکست و ریخت سے سبق سیکھا اور ضعیف الاعتقادی کی راہ ترک کر کے معقولیت کا راستہ اختیار کیا مگرمسلمان زوال و انحطاط کے دور میں رفتہ رفتہ دوا کے بجائے صرف دعا کے قائل ہوتے چلے گئے۔ اٹھارویں صدی میں جب نپولین نے مصر پر یلغار کی تو مسلمانوں کے فرماں روا مُراد بک نے تمام علمائے کرام کو جامع الازہر میں جمع کیا اور ان سے مشاورت کی کہ دشمن کے حملے سے بچنے کے لئے کیا دفاعی حکمت عملی اختیار کی جائے؟

تمام جید علمائے کرام نے متفقہ طور پر رائے دی کہ بلاؤں کو ٹالنے کے لئے صحیح بخاری سے بڑھ کر کوئی شے کار آمد نہیں ہو سکتی، لہٰذادشمن کو نیست و نابود کرنے کے لئے صحیح بخاری کا ختم شروع کروا دینا چاہیے۔ خوش الحان قاری صحیح بخاری کا ورد جاری رکھے ہوئے تھے اور ختم پاک کی تقریب مکمل نہیں ہوئی تھی کہ نپولین کی فوجیں شہر میں داخل ہو گئیں۔

شیخ عبدالرحمان الجبرتی بیان کرتے ہیں کہ اہرام کی لڑائی کے بعد انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کر رکھا تھا تو امیر بخارا نے رعایا کو جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دینے کے بجائے شاہی فرمان جاری کیا کہ مدارس اور مساجد میں ختم خواجگان پڑھا جائے تاکہ ملک پر حملہ آور تمام بلائیں دفع ہو جائیں۔ جیسے جیسے روسیوں کی قلعہ شکن توپوں کی گھن گرج بڑھتی چلی گئی ویسے ویسے ختم خواجگان کے لئے جمع ہونے والے اہل ایمان کے ذکر و اذکار کی آواز بلند تر ہوتی چلی گئی۔ ”پامردی مومن“ اور ”مشینوں“ کی اس جنگ میں کون جیتا اور کون ہارا، یہ بھی کوئی پوشیدہ راز نہیں بلکہ تاریخی حقیقت ہے۔

جنگ اور جارحیت کی وکالت نہیں کی جا سکتی لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنگ سے گریز اسی صورت ممکن ہے جب دشمن کو معلوم ہو کہ آپ لڑنے اور مرنے کو تیار ہیں۔ جب آپ کا ”ولی صفت“ بادشاہ برسرعام یہ کہتا ہے کہ ’کیا کروں؟ بھارت پہ حملہ کردوں‘ تو دشمن جان جاتاہے کہ یہ کسی صورت لڑنے پر آمادہ نہیں۔ پاکستان اور بھارت میں کھلی اور مکمل جنگ تو کسی صورت ممکن نہیں البتہ جنگ کے بیسیوں محاذ ہیں اورہمارے ’درویش صفت‘ حکمران ان میں سے کسی محاذ پر لڑنے کی پوزیشن میں نہیں۔

ستمبر 1957 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت ِپاکستان نے اقوام متحدہ جانے والے وفد میں شامل کیا تو انہوں نے 29 سال کی عمر میں اقوام متحدہ کے فورم پر خطاب کرتے ہوئے جارحیت کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جارحیت کا مطلب محض فوج کے ذریعے لشکر کشی نہیں ہوتا بلکہ اقتصادی جارحیت بھی کسی ملک پر حملے کے مترادف ہے۔ بھارت دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان کی زرخیز زمینوں کو بنجر کرنا چاہتا ہے تو یہ بھی جارحیت ہے۔

بھٹو کی طرح بہت سے دوراندیش لوگوں کا خیال ہے جنگ کی کئی جہتیں ہوا کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے کشمیر کے معاملے پر ہم نے سفارتکاری کے میدان سمیت ہر محاذ پر شکست قبول کر لی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اب ہمیں مودی کا غرور خاک میں ملانے اور کشمیر آزاد کرانے کے لئے اللہ کی بے آواز لاٹھی کا ہی انتظار کرنا ہوگا لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لاٹھی پست ہمت، شکست خوردہ اور بزدل لوگوں کی مدد کو کبھی نہیں آتی۔

ہم اب تک کشمیریوں کو بزدلی کے طعنے دیتے رہے اور یہ کہہ کر ان کا مذاق اُڑاتے رہے کہ یہ تو ’تپسی تے ٹھُس کرسی ”کے فلسفے پر یقین کرنے والے لوگ ہیں۔ بندوق کو یہ سوچ کر دھوپ میں رکھ دیتے ہیں کہ جب گرم ہوگی تو خود ہی چل پڑے گی اور دشمن کو نیست و نابود کردے گی لیکن موجودہ صورتحال میں حکومت پاکستان کی حکمت عملی دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہم نے بھی کشمیر آزاد کروانے کے لئے اپنی بندوقیں یہ سوچ کر دھوپ میں رکھ چھوڑی ہیں کہ ایک دن سورج کی حدت سے یہ خود ہی چل پڑیں گی اور مودی کا غرور خاک میں ملا دیں گی۔
”ہم سب“ کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد بلال غوری

بشکریہ روز نامہ جنگ

muhammad-bilal-ghauri has 14 posts and counting.See all posts by muhammad-bilal-ghauri