پاکستانی بچوں کے حقوق براستہ جنیوا 



پاکستان کے تیسرے عالمی معیادی جائزہ کی حتمی منظوری 19 مارچ 2018 کو جنیوامیں ہونے والے انسانی حقوق کو نسل کے اجلاس میں دی گئی ہے۔   پاکستان نے 289 سفارشات میں سے 168 کو منظور کیا ہے اور 117 کو زیر التواء یا غور طلب قرار دیا ہے جبکہ چار کو یکسر رد کردیا ہے۔

عالمی معیادی جائزہ کا نظام 15 مارچ 2006 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار دار1 60/25 کے تحت شروع ہوا۔   اسی قرادار کے تحت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا قیام بھی عمل میں آیا۔ عالمی معیادی جائزہ انسانی حقوق کو نسل کا خاص عمل ہے جو ریاستوں کو انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام، تحفظ اور نفاذ کی ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔   اس کا مقصد اقوام متحدہ کے 193 رُکن ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے۔ اس میں ساتھی ممالک ہی ایک دوسرے کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں، اس طرح سے عالمی معیادی جائزہ ایک ریاست طراز عمل ہے۔

عالمی معیادی جائزہ ہر رکن ریاست کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اس بات کا اعلان کرے کہ اس نے انسانی حقوق کے نفاذ سے متعلق اپنے فرائض کی ادائیگی اور اپنے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات کیے ہیں۔   اس عمل کے تحت اقوام متحدہ کی ہر رُکن ریاست کا جائزہ ہر ساڑھے چار سال بعد لیا جاتا ہے۔   پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا عالمی معیادی جائزہ پہلی دفعہ 2008 جبکہ دوسری دفعہ 2012 میں لیا گیا۔   نومبر 2017 میں اس نظام کے تحت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل نے تیسری مرتبہ پاکستان کا جائزہ لیا ہے۔

حالیہ جائزہ کے عمل میں تین رُکن ریاستوں مصر، عراق اور لیٹویا(troika) نے سہولت کاری کے فرائِض سرانجام دیے ہیں۔   اس کے علاوہ 14 ریاستوں سے سوال پاکستان کو پہلے ہی موصول ہوچکے تھے۔   تیسرے عالمی جائزہ کے سیشن میں پاکستان کی پوزیشن بیان کرنے والے وفد کی قیادت وزیر داخلہ خواجہ محمد آصف نے کی۔   سیشن کے دوران 111 رُکن ریاستوں نے سفارشات پیش کیں اور مجموعی طور پر پاکستان کو 289 سفارشات موصول ہوئیں۔

پاکستان کے تیسرے عالمی معیادی جائزہ میں بچوں کے حقوق کے نفاذ کے حوالے سے 67 براہ راست سفارشات موصول ہوئیں جن میں سے حکومت نے 51 منظور کیں جبکہ 16 کو زیر التواء یا غور طلب قرار دیا ہے۔   زیر التواء سفارشات میں سے دو میں بین الاقوامی معاہدات کے حوالے سے مزید ذمہ داریوں کی بات کی گئی ہے۔ ایک تو معاہدہ برائے حقوق اطفال کے تیسرے پروٹول کی توثیق جبکہ دوسری انسانی سمگلنگ (خصوصاً عوتوں اور بچوں ) کے خاتمے اور سزا کے پروٹول کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہے۔

زیر التواء سفارشات میں بچوں کی جنگی مقاصد (تنازعات) کے لیے بھریتوں اور استعمال کو جرم قرار دینے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔   پھر بچوں کے انصاف کے حوالے سے انسدادِ دہشت گردی کے دوران بچوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی خصوصاً بچوں کو سزا ئے موت کے ٖ فیصلوں اور پھانسی سے ممانعت۔   اس کے علاوہ بچوں کی مشقت کے خاتمے کے لئے حالیہ قانوں سازی پر عمل درآمد کے لئے اشارے (Indicators)ا ور ٹائم لائن تیار کرنے کی سفارش بھی کی گئی۔

حیران کن طور پر جب آئس لینڈ، آسٹریلیاء، ڈنمارک، نامیبیا اور بیلجیئم نے پاکستان میں کم سنی کی شادی کے خاتمے کے لئے قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے لئے اپنی سفارشات پیش کیں تو انھیں زیر التواء میں ڈال دیا گیا۔   اس کے برعکس آسٹریا اور بحرین کی طرف سے شادی کی عمر قانونی طور پر 18 سال تک بڑھانے کی سفارشات کو منظور کر لیا گیا۔   کیا حکومت حقیقتاً کم سنی کی شادی کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتی ہے یا نہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔

حالیہ معیادی جائزہ میں پاکستان نے بچوں کے حقوق سے متعلق زیادہ تر وہ سفارشات منظور کیں جو مبہم وعدوں پر مشتمل ہیں جن میں حقیقی ذمہ داری سے اجتناب کیا گیا ہے۔ کئی ایسی سفارشات بھی ہیں جو پہلے اور دوسرے عالمی معیادی جائزہ میں بھی منظور کی گئیں تھیں اور ان پر ابھی تک کام نہیں ہوا۔   دوست ممالک کی طرف سے کئی عمومی نرم سفارشات تعلیم، خوراک اور صحت کی صورتحال کو مزید بہتر بنانے پر دی گئی ہیں۔ تاہم ایک خاص سفارش یہ کی گئی ہے کہ بچوں کی صحت پر فضائی، آبی اور زمینی آلودگی کے اثرات کا تخمینہ لگایا جائے تاکہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے مضبوط حکمت عملی تیار کی جا سکے۔

بے گھر بچے (Street Children) جو کہ غیر محفوظ اور پچھڑے ہوئے بچوں کا اہم گروہ ہیں ان کا موجودہ جائزہ میں کو ئی براہ راست ذکر نہیں۔   اس وقت پاکستان کی سڑکوں پر 12 لاکھ سے 15 لاکھ تک بچے ہیں جو جرم، بیماری، نشہ اور جنسی استحصال کا آسان ہدف ہیں۔ اس لئے بچوں کے حقوق کی صورتحال بہتر بنانے والی کِسی جامع کو شش میں ان بچوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات ضروری ہیں۔

پاکستان نے جبری مشقت اور بچہ مزدوری کے خاتمے کے لئے تین سفارشات منظور کیں۔   ان میں سے کسی میں بھی گھریلو بچہ مزدور ی کا ذکر نہیں۔   بچے گھریلو مزدورطبقہ کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے ساتھ عموماً برُا برتاؤ کیا جاتا ہے۔   کئی واقعات میں تو بچوں پر اتنا بیہیمانہ تشدد کیا گیا کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔   اگر صرف صوبہ پنجاب کی صورتحال پر بات کی جائے تو پنجاب چائلڈ ویلفیراینڈ پروٹیکشن بیورو نے 16-2015 میں 76 بچوں کی جان اطلاع ملنے پر مختلف گھروں میں چھاپہ مار کر بچائی ہے۔ ان گھروں میں گھریلو مزدور بچوں پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ اگر بیورو کا عملہ مداخلت نہ کرتا تو ان بچوں کا زندہ بچنا شایدہی ممکن ہوتا۔   اس لئے حکومت کو اس مسئلے کے حل کے لئے فوری اقدامات اٹھانے چاہیں بے شک اس کا ذکر حالیہ جائزہ میں نہیں ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے ایک جامع چائلڈ پروٹیکشن پالیسی بنانے کا عہد کیا ہے۔   اصولاً چائلڈ پروٹیکشن سے مراد بچے کا غفلت، بد سلوکی، استحصال اور تشدد سے تحفظ ہے۔ اگر ملک میں صرف بچوں سے جنسی بد سلوکی کے پھیلاؤ کا ہی جائزہ لے لیا جائے تو ایک جامع چائلڈ پروٹیکشن پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔ غیر سرکاری تنظیم ساحل کے اعدادوشمار کے مطابق 2017 میں بچوں سے جنسی بدسلوکی کے 3345 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں یعنی پاکستان میں اوسطاً نو بچے روزانہ جنسی بدسلوکی کا شکار ہوئے۔

پاکستان نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ بچوں کے خلاف ہر قسم کے امتیازات اور تشدد کے خاتمے کے لئے مزید کو شیش کی جائیں گی، موجودقانونی ڈھانچے پر عمل درآمد کیا جائے گا، آگہی مہم چلائی جائے گی اور اس بات کو یقینی بنانا جائے گا کہ قصورواروں کو سزا ملے اور متاثرین کو انصاف۔

بلاشبہ عالمی معیادی جائزہ کی تمام سفارشات توجہ طلب ہیں تاہم بچوں سے متعلق سفارشات کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔   کیونکہ بچے پاکستان میں آبادی کا بڑا حصہ ہیں یہ معاشرے کا وہ کمزور طبقہ ہیں جنھوں نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے۔   پاکستان ایک ذمہ دار ریاست اور معاشرے کے طور پر اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ ملک میں ہو نے والی بچوں کے حقو ق کی پا ما لیوں کو نظراندازکرے۔ بچوں کے حقو ق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام اور بچوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے پاکستان کو اتنے مضبوط اقدامات اٹھانے چاہیں کہ 2022 میں ہونے والے چوتھے عالمی معیادی جائزہ کے وقت ہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ بچوں کے حقوق اتنے اہم ہیں کہ نہ تو ملک کے اندرسے ان کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی جنیوا میں ہونے والے بحث مباحثے کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).