صدر ٹرمپ کو کرنی بھرنی پڑگئی


ابھی کچھ ہی دن پہلے کی توبات ہے کہ میری سہیلی میرے گھر چکر لگانے آگئی تھی۔ باتوں ہی باتوں میں میری لکھی ہوئی تحریروں کا ذکر چلا تو اس کے ابرو تن گئے کہنے لگی مجھے تمہارے ٹائٹل ذرا نہیں پسند آتے میں چونک گئی میرے کان کھڑے ہوگئے جو پہلے سو رہے تھے بلکل ہی لغو قسم کے ہوتے ہیں اس نے اپنی آنکھیں سکیڑ کے کہامیں الجھن میں تھی میں نے اس سے پوچھا کہ آخر کس قسم کے ٹائٹل تم پسند کیا کرتی ہو تاکہ میں آئندہ خیال رکھوں۔ اس نے اپنی اشھد انگلی دماغ پہ رکھ کے دوتین دفعہ ہلکی تھپ تھپ کی یعنی وہ سوچ کر بتانا چاہتی تھی پھر بولیں۔ مثال کے طور پر جیسی کرنی ویسی بھرنی جیسے ہونے چاہیے۔

میں تو اس کے عقل کی قائل ہی ہوگئی واقعی یہ مثبت تنقید تھی یہ عنوان تو عالم گیریت کا حامل تھا سوبات کو یاد رکھنے کے لئے میں نے اسے اپنے رجسٹر میں لکھ دیا۔ اب آگے بڑھیں۔ سوچتی ہوں کرسٹو فر کو لمبس کو کیا پڑی تھی کہ جاکر امریکا دریافت کیا باقی دنیا کے علاوہ وہاں کے ریڈ انڈین بھی سکھ سے رہ رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ اپنے بڑے مجرموں کو سخت سزا دینے کے لئے امریکا چھوڑ آیا کرتا تھا پر اب ان مجرموں کی اولاد کے علاوہ تقریباً پوری دنیا کے ہربولی بولنے والے امریکی بنے بیٹھے ہیں اور کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے ہیں۔ امریکا کا آئین قد اور وزن میں ہلکا پھلکا ہے۔ آئین میں ترمیم ناممکن تو نہیں پر مشکل ترین ضرور ہے دنیا کامختصر ترین آئین سلجھا جاتا ہے۔

اس دفعہ نوجوان امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر کی کرسی پہ بیٹھنے کے لئے الیکشن میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔ پہلے وہ مسلمانوں پہ ہنستا تھا کہ عجیب جاہل لوگ ہیں کہ معجزوں پہ یقین رکھتے ہیں پر ٹرمپ جب خود معجزاتی طور پر الیکشن جیتا تو اس کی ہنسی رک گئی۔ ٹرمپ الیکشن تو کسی طرح جیت ہی گیا پر سی آئی اے نے خبردار کیا کہ ابراھام لنکن اور جان ایف کینڈی کے بعد اب آپ کی باری آسکتی ہے کہ غالب گمان بھی ہے۔ یہ سن کر وہ خوفزدہ ہوگیا سونے پہ سہاگہ کہ اس نے ٹی وی پہ لاکھوں خواتین کے مخالفت میں ہلتے ہوئے سر دیکھ لئے تو اس پر ہیسٹریا کے دور ے پڑنے شروع ہوگئے وہ دیوار کی طرف منہ کرکے مسعود رانا کا گانا گانے لگا۔ اکیلا ہوں میں اکیلا۔

ٹرمپ کی یہ حالت دیکھ کر اس کی بیوی پریشان ہوگئی چار گارڈ بلاکر اس کو ٹانگا ڈولی کروا کے ماہر نفسیات کے پاس لے گئی۔ ماہر نفسیات کے اسیٹھتو اسکوپ اس کے دماغ پہ رکھ کر چکاس کیا اور یہ کہا کہ ان کی یہ کیفیت تب ہی سہی ہوسکتی ہے جب وہ مسلمانوں کے اطوار پر ایک تحقیقی مکالمہ لکھیں مزید انہوں نے یہ کہا کہ مقالا لکھنے کے لئے مسلمانوں کے چوکیدار ملک پاکستان چلے جائیں تو زیادہ مفید رہے گا۔

واپس آکے ٹرمپ نے گوگل سے پوچھا کہ پاکستان کا کون سا شہر زیادہ اچھا رہے گا گوگل نے جواب دیا سب سے بہتر لاہور ہی رہے گا مزید کہا وہیں گلبرگ یا ماڈل ٹاؤن جیسے علاقے میں مت جاکے رہنا کوئی افاقہ نہیں ہوگا مغل پورہ یا شاہدرہ زیادہ مناسب ہوتے ہیں آپ کے جیسوں کے لئے۔ گوگل تو چپ ہی نہیں ہو رہا تھا یہ دیکھ کے تو نوجوان امریکی صدر غصے میں اور سرخ ہوگیا جو پوچھو وہی بتاؤ زیادہ زیادہ مت بولو۔ گوگل ٹرمپ کو اتنے غصے میں دیکھ کے تو ہنس پڑا جمپ مار کر کیمپوٹر سے ہی باہر آگیا دیکھو اگر تم چاہتے تو میکسیکو والی دیوار بہت مضبوط بنے تو اس کے لئے روز بادشاہی مسجد کے پیش امام سے پانی پردم کروا کے پیا کرنا وہ واپس کمپیوٹر میں گھستے ہوئے کہنے لگا اپن کی طبیعت سوشل ہے اس لئے ہم دماغی مریضوں کو مفت مشورے دیتا ہے۔

اس دوران نوجوان امریکی صدر غصے میں لال پیلا ہوچکا تھا پر اس نے مشورہ ماننے کی ٹھان لی تھی اور دونوں میاں بیوی لاہور جانے کے لئے گھٹڑیاں باندھنے لگے لاہور پہنچ کے مغل پورہ میں ایک کرائے کا مکان لیا جہاں وہ ادھر ادھر گھوم کے مسلمانوں کے اطوار کا جائزہ لیا اور تحقیقی مقالا لکھنے کی کوشش کرتا۔ کافی دن بیت چلے تھے مگر نوجوان امریکی صدر سے مقالا شروع کرنا ہی مشکل تر ثابت ہورہا تھا۔ مغل پو رہ اسے اتنا اچھا لگا تھا کہ وہ سوچ رہا تھا واپس پہنچ کے پہلا یہ کام کرلے گا کہ ڈزنی لینڈ کو بڑھاکے بالکل ایسا مغل پورہ وہاں بنوائے گا دنیا اسے دیکھنے کے لئے ٹوٹ پڑے گی اس طرح محکمہ سیاحت کی آمدنی بڑھ جائے گی بجٹ کا خسارا پورا ہوجائے گا۔ کاغذ قلم ساتھ لئے پھر تا کیا کرتا اس سے تو ایک لفظ ہی نہیں لکھا جاتا تھا سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا ابتدا کہاں سے کرے۔

یہاں کھانا اس کی بیوی ہی بناتی تھی ایک دفعہ اس نے قصائی کی شکایت کی کہ نہ جانے کیسا گوشت دیتا ہے کہ مجھ سے پکایا ہی نہیں جاتا مجھے یہ چھوٹے کا گوشت خاص لگتا ہے یہ عام ہر گز نہیں ہے۔ ٹرمپ کی بیوی لاڈلی تھی وہ اپنی بیوی کے کہنے میں تھا شکایت سن کر تو وہ قصائی پر آگ بگولا ہوگیا۔ اس نے جلد ہوائی چپل پہنے قصائی کی دکان پر پہنچا اور جلے بھنے انداز میں کہا یہ کیسا گوشت دیتے ہو میری بیوی بیچاری تو پکاہی نہیں سکتی کہیں بڈھا گوشت تو نہیں دیتے۔ قصائی بے نیازی سے مسکرایا ہاں کچھ مشکل تو ہوتی ہوگی کہ ہم ملٹی پرپز گوشت بیچتے ہیں پر اس کو بڈھا مت بولو مردوں کا تو خیر ہے کتے، بلے کچھ نہیں کہتے پر کتیا تو بڑی کتیا ہوتی ہیں نایہ چھری پھیرنے سے پہلے ہم سے وعدہ لیتی ہیں کہ ان کی اصل عمر کسی کو نہیں بتائی جائے گی۔ یہ سن کر پہلے تو نوجوان امریکن صدر نے پلکیں جھپکائیں پھر خوشی سے نعرہ مارا۔ آگیا آگیا مجھے مسلمانوں کے اطوار پر تحقیقی مقالا لکھنے کے لئے مواد مل چکا ہے میں ابھی جاکے لکھنا شروع کرتا ہوں۔
نوٹ: یہ کالم جیسی کرنی ویسی بھرنی کے عنوان کو ذہن میں رکھ کے لکھا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).