ایک ذمہ دار محبوب یا ایک غیر ذمہ دار ولن


محبت ایک فطری جذبہ ہے اور اس کا ہونا بالکل اسی طرح ہے جیسے پیاس یا بھوک کا لگنا۔ مگر چونکہ اس فطری تقاضہ کی تکمیل یا تسکین میں ایک دوسرا فریق بھی شامل ہوتا ہے اس لئے اس کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جن کا خیال رکھنا ہر فریق پر لازم ہے تاکہ آپ کی ذات سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔ محبت ایک ایسا عمل ہے جس میں لڑکا اور لڑکی فریق ہوتے ہیں۔ دونوں کی کچھ فطری خواہشات ہوتی ہیں، کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں نت نئی کہانیاں موجود ہیں۔ کہیں لڑکا ظالم ہے تو لڑکی معصوم اور کہیں صورتحال اس کے برعکس ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نہ تو سب لڑکے ظالم ہوتے ہیں اور نہ سب لڑکیاں معصوم ہوتی ہیں۔ لڑکیوں کے لئے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے انہیں کئی مشورے بھی دیے جاچکے ہیں لیکن کسی لڑکے کے لئے نہ کچھ لکھا گیا نہ اسے مشورہ دیا گیا اس لئے اس کمی کو پورا کرتے ہوئے بطور مرد میں ان مرد حضرات کو کچھ مشورے دینا چاہتا ہوں جو محبت کی بازی کھیل رہے ہیں یا کھیلنے جا رہے ہیں۔

ہمارا معاشرہ دنیا کے دوسرے معاشروں کی طرح تبدیل ہورہا ہے مگر اس میں اب بھی کافی حد تک یعنی زیادہ تر خاندانوں میں لڑکی کو ایک ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ ایک لڑکی جب پیدا ہوتی ہے تو جوان ہونے تک ماں باپ کی ذمہ داری کہلاتی ہے۔ شادی کے بعد شوہر کی ذمہ داری اور اگر شوہر اللہ کو پیارا ہوجائے تو پھر بیٹے کی ذمہ داری کہلاتی ہے۔ یہ ذمہ داری پوری کی جاتی ہے یا نہیں اور اگر پوری کی جاتی ہے تو کس حد تک؟ یہ الگ موضوع ہے۔ لیکن اسے ذمہ داری سمجھا ضرور جاتا ہے۔

جب کہ لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ماں باپ کا سہارا آگیا، وارث آگیا، بازو آگیا وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اس کا کام ذمہ داری اٹھانا ہوگا نہ کہ ذمہ داری بننا۔ اب جب تک وہ پڑھ رہا ہوتا ہے تب تک ماں باپ کی ذمہ داری۔ اور یہ ذمہ داری بھی اسی لئے تاکہ وہ اس قابل ہوسکے کہ آگے چل کر خاندان کا بوچھ اٹھا سکے۔ شادی ہوجائے تو ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ بیوی اور بچوں کی ذمہ داری بھی اٹھانی ہے۔ اور مرنے سے پہلے اتنا کچھ کرکے بھی ضرور جانا ہے کہ بچے والد کی وفات کے بعد کسی کے محتاج نہ ہوں۔ یعنی ہوش سنبھالنے سے لے کر گھر سنبھالنے کی یہ مشق زندگی کی آخری سانسوں تک جاری رکھنی ہے کیوں کہ مرد کی عزت و غیرت کا معاملہ ہے۔ یہ ذمہ داری بھی کس حد تک ادا کی جاتی ہے، کی بھی جاتی ہے یا نہیں؟ یہ بھی ایک الگ موضوع ہے۔ یہاں بات امید کی ہے کہ جو یہ معاشرہ یا کم سے کم ایک خاندان ایک مرد سے رکھتا ہے۔ یہاں یہ سوال ضرور ذہنوں میں پیدا ہوگا کہ اب تو لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں نوکری کرتی اور گھر سنبھالتی نظر آتی ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے مگر تمام آبادی کے تناسب سے بات کی جائے تو اب بھی مرد یا لڑکے کو ہی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

عام طور پر لڑکے جب محبت کا آغاز کرتے ہیں تو خوابوں میں جینا شروع کردیتے ہیں۔ جو کچھ لو اسٹوریز فلموں میں دیکھا ہوتا ہے اسے حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔ دوسرے لڑکوں کی زبانی سنے ہوئے قصے چاہے وہ چھوٹ کا پلندہ ہی کیوں نہ ہوں سچے لگتے ہیں اور وہ سب معرکے جو دوسرے لڑکوں نے سر انجام دیے ہوتے ہیں خود بھی دینا چاہتے ہیں اور اس میں اچھے برے، صحیح غلط اور جائز و نا جائز کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ پیسے جو ماں باپ، بہن بھائیوں کے کام آنا تھے محبوبہ کے لئے تحائف اور ایزی لوڈ پر قربانکیے جاتے ہیں تاکہ پوری رات محبوبہ سے پیار بھری باتیں اور مستقبل کے منصوبے بنائے جا سکیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ خود پوری رات کسی لڑکی سے محبت بھری باتیں کرنے والا لڑکا اگر اپنی بہن کے پاس سیل فون دیکھ لے تو غیرت کا پارہ دوزخ کے درجہ حرارت سے جا ملتا ہے۔ اس وقت یہ غیرت نہ جانے کہاں مر جاتی ہے کہ جب آپ کسی لڑکی کو تو تحائف دے رہے ہوتے ہیں مگر اپنی بہن چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے سوال بنی نظر آتی ہے۔

میرے نزدیک مرد کی غیرت کا اندازہ اس بات سے نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ گھر کی خواتین کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر کتنا آگ بگولہ ہوتا ہے بلکہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنی ذات کو کس حد تک اپنے گھر والوں اور اپنی ذمہ داریوں کے لئے ذمہ دار بنایا ہے۔ کیا اس کی غیرت اس بات پر جوش نہیں کھاتی کہ اس کے ماں باپ، بہن بھائی، اور بیوی بچے اس کے ہوتے ہوئے بھی کسی غیر پر تکیہ کرتے ہوں۔ مرد حضرات یہ بات ذرا ذہن نشین فرمالیں کہ لڑکیاں اتنی بھی بے وقوف نہیں ہوتیں جتنا آپ ان کو سمجھتے ہیں آپ کی ان تمام حرکات سے وہ آپ کے گھر والوں کی عزت آپ کی نظر میں جانچ لیتی ہیں اور اگر شادی ہوجائے تو پھر ان کے ساتھ ان کا سلوک وہی ہوتا ہے جو خود آپ نے روا رکھا ہوتا ہے۔

آخر میں باب علم حضرت علی کا قول ہمیں ایک قانون پیش کرتا نظر آتا ہے کہ۔
اگر دیکھنا چاہتے ہو کوئی شخص کتنا قیمتی ہے تو یہ دیکھو کہ اس میں احساس ذمہ داری کتنا ہے۔

اس لئے تمام حضرات سے میری عرض ہے کہ محبوب بننے سے پہلے ذمہ دار بنیں۔ اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کریں۔ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے انجام دیں یقین رکھیں اصل اور سچی محبت جسم سے نہیں خوبیوں سے ہوتی ہے اور آپ کی جو خوبی پوری دنیا سے آپ کو ممتاز بناتی ہے وہ آپ کا احساس ذمہ داری ہے۔ اگر یہ ہوگا تو آپ سب کے محبوب ہوں گے۔ آپ سے پیار بھی کیا جائے گا اور عزت و احترام بھی۔ گھر میں آپ کی ایک حیثیت بھی ہوگی اور آپ کی بات کی اہمیت بھی۔ ورنہ ہوسکتا ہے کہ محبوب تو آپ بن جائیں لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا اور آپ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ آپ کے محبوب پر آشکار ہوگا۔ آپ ہیرو سے ولن میں تبدیل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ لیکن اگر آپ واقعی ایک ذمہ دار شخص ہیں تو آپ سے کی گئی محبت وقت کے ساتھ کم ہونے کے بجائے اور بڑھے گی۔ اور اپنے خاندان میں آپ کا کردار ہمیشہ ایک ہیرو کا ہوگا یہ کبھی ولن میں تبدیل نہیں ہوگا۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ کی ازدواجی زندگی کیسی ہونی چاہیے۔ کئی مثالیں معاشرہ میں موجود ہیں کہ جن میں لڑکی صرف اس بات پر شوہر سے علیحدہ ہوگئی کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں سنجیدہ نہیں تھا۔ اس لئے آپ کی زندگی میں آپ کی اپنی حیثیت اور کردار کا تعین بھی آپ خود کرتے ہیں ایک ذمہ دار محبوب یا ایک غیر ذمہ دار ولن۔
علی اکبر عابدی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).