چین کا طوطی اور ٹرمپ کا غسل خانہ


ان دنوں تو چاردانگ عالم میں بقول کسے چین کا طوطی بول رہا ہے اور صاحبو ایک نہیں چین کے تو سینکڑوں طوطی بول رہے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اتنے طوطی بول رہے ہیں۔ میرا طوطوں کے بارے میں علم قدرے محدود ہے لیکن پلیز کوئی صاحب طوطا علم مجھے آگاہ کر دے کہ کیا یہ والے طوطے جو ’’توتے‘‘ ہوتے ہیں، میاں مٹھو ہوتے ہیں تو کیا ان کی صنف مخالف طوطی کہلاتی ہے یا پھر یہ طوطی جو بولتا ہے کوئی اور طوطی ہے۔ یعنی بقول سلیم کوثر ’’ میں طوطا ہوں کسی اور کا۔ میری طوطی کوئی اور ہے‘‘۔

بہرحال چین چھا گیا ہے صاحبو! واحد ملک ہے جس کا امریکہ صاحب بہادر مقروض ہے اور چین پچھلے قرض کا تقاضا نہیں کرتا۔ امریکہ کے عام لوگوں کے لیے روز مرہ کی ضرورت کی اشیاء مسلسل سپلائی کر رہا ہے نہ کرے تو ان اشیا کی قیمتیں تین گنا زیادہ ہو جائیں اور امریکی بغاوت کر دیں۔ چنانچہ زلف دراز اور زبان دراز‘ کراؤن پرنس سلمان کا فیورٹ آقا یعنی ٹرمپ ٹاور۔ معاف کیجیے گا ڈونلڈ ٹرمپ بھی چینی صدر کے سامنے دم نہیں مارتا بلکہ یاہویاں نہیں مارتا کہ اس کا مقروض ہے۔ اور ہاں میں جو روانی میں ٹرمپ ٹاور کہہ گیا تو اس کے ساتھ بھی ایک لذیذ حکمت جڑی ہوئی ہے۔

میں پچھلے دس بارہ برسوں میں متعدد بار امریکہ گیا اور میں حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ ایئر پورٹ پر امیگریشن افسر نے ہمیشہ دو چار منٹ میں مجھے فارغ کر دیا۔ پاسپورٹ پر چھ ماہ قیام کا ٹھپہ لگا دیا اور کہا! سر مجھے امید ہے کہ آپ اپنے قیام سے لطف اندوز ہوں گے اور حلفیہ بیان یہ دیتا ہوں کہ کبھی میری شلوار میرا مطلب ہے پتلون نہیں اتروائی گئی یہ رتبہ بلند جسے مل گیا سو مل گیا۔۔۔ تو ہمارے وزیر اعظم عباسی صاحب کو مل گیا۔ ایک تو میرے ہجے بہت کمزور ہیں اباسی نہیں عباسی صاحب اور پھر سبحان اللہ ان کے وزیر بے تدبیر کیسی کیسی شاندار توجہیں پیش کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم تو ایک پرائیویٹ سلسلے میں امریکہ گئے تھے اور انہوں نے امریکی قوانین کی پاسداری کی نہایت درخشاں مثال قائم کی اور کپڑے اتار دیے۔ ایسا درویش وزیر اعظم آسانی سے کہاں دستیاب ہوتا ہے مخالفین یونہی غوغا کرتے ہیں۔ یعنی جب وہ ذاتی حیثیت میں امریکہ گئے تو ایک عام شخص کے طور پر گئے۔ وزارت عظمیٰ کا چوغا امانتاً صدر ممنون حسین کے سپرد کر گئے کہ واپس آؤں گا تو پھر پہن لوں گا۔

بہرحال میں بات ٹرمپ ٹاور کے حوالے سے کر رہا تھا۔ میں حسب عادت ہر صبح نیو یارک میں جوگر چڑھا کر اپنے بیٹے سلجوق کے فلیٹ سے نکل کر سیر کے لیے نکل جاتا۔ سیر کے اختتام پر کسی مناسب ریستوران میں ناشتہ بھی کر لیتا اور یوں گھر واپسی پر میری بہو میرا والہانہ استقبال اس لیے کرتی کہ شکر ہے سسر صاحب ناشتہ کر آئے ہیں ورنہ میں ان بابا جی کے لیے کہاں پنیر کا آملیٹ وغیرہ تیار کرتی۔ تو ایک روز میں سنٹرل پارک میں سیر کر کے گھر کے لیے لوٹنے لگا تو محسوس ہوا کہ کچھ بوجھ سا بڑھ گیا ہے، فراغت کا تقاضا کرتا ہے اور فی الفور فراغت کا طلب گار ہے۔ سنٹرل پارک میں کوئی ایسا مقام نہ ملا جہاں میں کھلے عام پاکستان کی مانند اس آبی فرض سے سبکدوش ہو سکتا۔ ادھر ادھر سے پوچھا تو بھی کسی مقام کی نشاندہی نہ ہو سکی۔ تب میں نے پلے بوائے کے دفتر کے باہر کھڑے ایک نہایت فربہ کالے شاہ کالے دلدار سے پوچھا کہ معاف کیجیے ادھر کہیں کوئی ٹائلٹ ‘ ریسٹ روم وغیرہ ہے تو وہ کچھ بڑبڑایا۔ کہ ففتھ ایونیو پر ٹمپ ٹمپ ٹاور۔ یعنی ففتھ ایونیو پر ٹرمپ ٹاور ہے وہاں چلے جاؤ اور یاد رہے ان زمانوں میں آقا ٹرمپ کو گمان بھی نہ تھا کہ کبھی وہ وہائٹ ہاؤس میں گھس جائے گا۔ ففتھ ایونیو پر واقع ٹرمپ ٹاور کی عمارت آسمان سے باتیں کرتی تھی۔ میں نے غور سے نہیں سنا کہ کیا باتیں کرتی تھی۔ میں اس کے اندر داخل ہوا تو اس کا اندرون بے حد بھڑکیلا اور واہیات تھا۔ جیسے نو دولتیوں کے عالی شان گھر ہوتے ہیں یا سعودیوں کے سنہری محل ہوتے ہیں یا رائے ونڈ کے قصر ہوتے ہیں۔ امارت کا بھڑکیلا پن‘ ذوق جمال سے عاری۔ بہرطور میں اس پر ٹرمپ صاحب کا شکر گزار ہوا ان کے ٹاور کے ایک غسل خانہ میں قدم رنجہ فرما کر اپنے آپ کو دل کھول کر فارغ کیا۔

اب سوچتا ہوں تو اپنی قسمت پر نازاں ہوتا ہوں کہ کہاں میں اور کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔ میں وہ ہوں جس نے کبھی حالیہ صدر امریکہ کے تعمیر کردہ غسل خانے میں فراغت حاصل کی تھی۔ امریکہ کے سپر سٹورز اور شاپنگ مال میں گلیوں بازاروں میں تقریباً ہر شے ’’میڈ ان چائنا‘‘ ہے۔ لطف تب آیا جب میں نے لیڈی لبرٹی یعنی مجسمہ آزادی کی زیارت کرنے کے بعد سووینئر کے طور پر ایک سٹال سے مجسمہ آزادی کی ایک بالشت بھر نقل خریدی اور اس کے پیندے میں بھی ’’میڈ ان چائنا‘‘ لکھا تھا۔ انہی دنوں امریکی اخباروں میں ایک کارٹون شائع ہوا ۔ ایک صاحب ابراہم لنکن کے جہازی سائز کے مجسمے کو ایک کونے سے پکڑ کر اسے اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ایک مسلح گارڈ پوچھتا ہے کہ یہ تم کیا کر رہے ہو تو وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں لنکن کے مجسمے کے نیچے جھانکنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کہیں اس کے پیندے میں بھی’’میڈ ان چائنا‘‘ تو نہیں لکھا ہوا۔ امریکہ پر کیا موقوف دنیا بھر میں یہ چین ہی ہے جو چین کی نیند سوتا ہے کہ اس کی مصنوعات بیدار ہیں اور ہر سو راج کرتی ہیں اور تو اور آپ حج کے لیے جائیں یا عمرہ ادا کرنے جائیں واپسی پر مُصلاچین کا‘ تسبیح چین کی، یہاں تک کہ مقدس رومال اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے ماڈل بھی چین کے۔ البتہ قربانی کے بکرے میرا گمان ہے کہ ابھی تک آس پاس کے ملکوں کے ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ان کی جگہ ایسے بکرے آ جائیں گے جو باں باں کی بجائے چاں چاں کر رہے ہوں گے۔

چلیے دور کیوں جانا، اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیر لیتے ہیں۔ لاہور کی شاہ عالمی مارکیٹ میں چینی خواتین خوانچے لگائے بیٹھی ہیں۔ یہاں تک کہ برانڈرتھ روڈ پر بھی چینی حضرات کا نزول ہو چکا ہے۔ اظہار الحق نے مستقبل کے پاکستان کا جو چینی نقشہ کھینچا ہے اس کی ابتدا ہو چکی ہے۔ اگلے روز کار ریڈیو کے بٹن دبائے تو وہاں اردو میں ایک چینی چینل کی چوں چاں ہو رہی تھی۔ چینی تاریخ اور زبان کی فضیلت بیان ہو رہی تھی۔ میرے ایک دوست جو بیورو کریسی میں بہت اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اور اکثر کوریا اور چین وغیرہ سرکاری طور پر جاتے رہتے ہیں انہوں نے ایک خفیہ بات کی تو آپ سے کیا پردہ کہنے لگے! تارڑ صاحب ایک زمانہ آنے کو ہے جب آپ امریکیوں کو یاد کریں گے۔ امریکی جہاں جاتے ہیں کبھی نہ کبھی واپس چلے جاتے ہیں۔ چینی جہاں جاتے ہیں وہاں سے واپس نہیں آتے۔ نہ سنکیانگ سے نہ تبت سے، واپس نہیں جاتے۔

میں ان دنوں کی جانب لوٹتا ہوں جب چین کا طوطی منقار زیر پر تھا۔ بولتا ہی نہ تھا۔ بولتا تو امریکہ اور مغرب اس کی گچی گھونٹ دیتے۔ کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ چین کہاں ہے۔ کیا ہے‘ کیوں ہے اور لانگ مارچ کے بعد ماؤزے تنگ نام کے ایک شخص نے پورے چین کو فتح کر کے چیانگ کائی شیک کو شکست دی ہے اور وہ فرار ہو کر فارموسا چلا گیا ہے۔ وہاں امریکیوں کی ہلا شیری سے تائیوان نام کا ایک الگ چین قائم کر لیا ہے۔

ان زمانوں میں ایک امریکی صحافی ایڈ گرسنو کی کتاب’’ریڈ سٹار اوور چائنا‘‘ شائع ہوئی جس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ میرے پاس اس کا پہلا ایڈیشن آج بھی کہیں موجود ہے۔

(جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar