بچہ مسلم لیگ بمقابلہ عاشق حسین بٹالوی


برادر بزرگ قبلہ عثمان قاضی نے عاشق حسین بٹالوی صاحب کے مولانا غلام رسول مہر کو لکھے خط کا ذکر کیا چھیڑا، سوشل میڈیا پر تو جیسے ایک قیامت سی آ گئی۔ردعمل میں اصحابِ علم و دانش نے ایسے ایسے نکات اٹھائے کہ تحریک ِ انصاف کے ٹائیگرز کا طریق استدلال معقول دکھائی دینے لگا۔ ایسی آراءکو تو خیر غیررسمی ہلکے پھلکے تہذیبی تبصرے سمجھ کر نظر انداز ہی کر دیجئے جن میں بٹالوی صاحب کے ’خبثِ باطن‘ اور ’ذہنی صحت‘ وغیرہ کی نشاندہی کی گئی ہے،ایسی دلچسپ ترین خواہشات کا اظہار بھی دیکھنے میں آیا کہ ایسے خطوط کو ردی کی ٹوکری کے حوالے کر دینا ہی زیادہ مناسب ہے کیوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلمہ تاریخی حیثیت پر سوال اٹھنے کا اندیشہ ہے۔پھر جیسے ہمارے ہاں روز ہی ہوتا ہے فوراً یہ فیصلہ بھی صادر کیا گیا کہ یہ سیکولر لبرل طبقات کی روایتی مسلم نیشنلسٹ طبقات کے خلاف سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ نظریہ پاکستان کے خلاف زہر اگلا جائے۔ شکر ہے وطن عزیز میں توہین رسالت اور توہین مذہب کے ساتھ فی الحال توہین قائد اعظم کا کوئی قانون نہیں ورنہ احباب تو یہ رائے بھی پیش کرتے نظر آئے کہ جناح صاحب کے ساتھ قائد اعظم کا سابقہ نہ لگانے والے حضرات بھی کسی باطنی خباثت کا شکار ہیں۔

یوں معلوم ہوا جیسے ان تمام معتقدین کو تاریخی دستاویزات کی اہمیت سے تو خیر جو علاقہ ہو سو ہو، کم ازکم اتنا یقین ضرور ہے کہ ایام رفتہ پر ایک غیرجذباتی نگاہ ڈالنے سے بھی ساٹھ اور ستر کی دہائی کے تراشیدہ نظریہ پاکستان کی بنیادیں متزلزل ہونے کا خدشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مفروضے سے معقول ترین نتیجہ یہی نکالا جا سکتا ہے کہ ایسے ’زہر میں بجھے‘ ہوئے خطوط کو نسیم حجازی کے ناولوں اور مطالعہ پاکستان کی درسی کتابوں کے کہیں بہت نیچے دفن کر دیا جائے اور جو ابھی ان گڑے مردوں کو اکھاڑے، اسے غدار ، سیکولر لبرل وغیرہ جیسے خطابات دے کر اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کی جائے۔

بندہ اس موضوع پر طویل تبصرہ آرائی کی علمی استطاعت تو نہیں رکھتا لیکن ان بحثوں سے ذہن ایک دلچسپ جانب مبذول ہو گیا۔ کچھ عرصہ قبل نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طباعت کردہ کتاب نظر سے گزری تھی جس میں جناح صاحب کے نام ان بچوں کے 46 خطوط مرتب کئے گئے ہیں جنہوں نے 1939ءسے 1947ءکے درمیان مسلم لیگ کو عطیات دئیے اور اپنے ہر طرح کے ساتھ کی یقین دہانی کرائی۔ جہاں ان خطوط سے بچوں کی محبت بھری معصومانہ سیاسی بصیرت کا علم ہوتا ہے وہیں یہ اشارے بھی ملتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہم اس تاریخی بصیرت کے سفر میں کہاں کھڑے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بچہ مسلم لیگ کے معصوم کارکنان کی یہ دوسری نسل جو اب ادھیڑ عمری میں قدم رکھ رہی ہے، اپنے طرز استدلال میں اسی معصومیت پر قائم ہے۔ لیجئے نمونے کے طور پر بٹالوی صاحب والے خط کی مرچوں کا دف مارنے کے لئے تین چاراقتباسات پیش خدمت ہیں۔

مورخہ 29فروری 1942
جناب بابا جی صاحب۔ حضور جناح صاحب
بعد آداب ِ غلامانہ عرض ہے کہ پھوپھا جان بیس دن ہوئے ، دوستوں سے کہتے تھے کہ حضور جناح صاحب نے مسلمانوں کے کام واسطے ہر ایک مسلمان سے چندہ مانگا ہے۔ آگے نہیں مانگا تھا۔ بابا جی صاحب مجھ غلام کو جو پیسہ ملتا ہے میں نے اکھٹا کر لیا ہے۔ آپ کوئی فکر نہ کریں۔ آٹھ آنے جمع ہو گئے ہیں۔ٹکٹ لے کر اس لفافے میں بند کر کے بھیجے ہیں۔خدا کرے آپ کو مل جائیں۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میں اور بھی پیسے جمع کروں گا۔ اگر یہ آٹھ آنے آپ کو مل گئے اور بھی بھیجوں گا۔ آپ کوئی فکر نہ کریں۔ اور جب بڑا ہوں گا اور بھی بہت زیادہ روپے بھیجوں گا۔ خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آداب۔
راقم
آپ کا غلام
عزیز الرحمن طالبعلم جماعت پنجم (چشتیہ ہائی اسکول امرت سر)

مورخہ 21مئی 1942
بسم اللہ
اسلام زندہ باد، پاکستان زندہ باد! مسٹر محمد علی جناح زندہ آباد
السلام علیکم
[۔۔۔] میرے والد صاحب اپنی بے کسی کی وجہ سے مجھے تعلیم بند کرنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن میں تعلیم یافتہ ہو کر کچھ اپنے مذہب اور اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ میرے خیالات بہت وسیع اور آزادانہ ہیں۔ خدا مجھے اپنے مقصد اور ارادوں میں کامیاب کرے۔ آمین!
میرے اکثر ہندو دوست پاکستان کی مخالفت میں مجھ سے بحث کرتے ہیں لیکن میں کبھی ان کو جیتنے نہیں دیتا۔ خدا کرے کہ جلد سے جلد ہندوستان میں پاکستان قائم ہو جائے اور ہندوستان کے بلکہ دنیا کے مسلمان ہمیشہ دنیا میں آزاد رہیں۔ یہ میری خدا سے دعا ہے۔ مسلمان دنیا پر حکومت کرنے کے لئے آئے ہیں نہ کہ کسی غیرمسلم کے محکوم بننے کے لئے! ہندوستان کی قسمت کا ستارہ جلد چمکنے والا ہے۔ والسلام۔
خدا سے میری دعا ہے کہ پاک پروردگار آپ کو ہمیشہ تندرست رکھے اور آپ کا سایہ ہمیشہ ہمیشہ ہمارے سرو ں پر رکھے۔ آمین۔
میں ہوں ایک آزاد خیال مسلم طالب علم
محمد علی بھٹاں
(بمبئی)

مورخہ 23مارچ 1940
السلام علیکم
ادائے آداب و کورنشات
جناب قبلہ قائد اعظم صاحب سلامت

بڑی مشکل سے خط لکھنے کی جرات کی گئی۔ میں آپ کے دیدار کا شوق رکھتا تھا۔ آپ لاہور تشریف لائے ہیں مگر میری قسمت کہاں میں آپ کو مبارک عرض کرتا۔ دوران الیکشن میں ملت کو امداد دے چکا ہوں۔ میاں نور الٰہی صاحب کو یاد ہو گا۔
ا بھی میں نے یومِ پاکستان منانے کا بندوبست کرنا ہے۔آپ کی تصویر میرے پاس ہے۔ میں نے بچہ لیگ کی ایک جماعت بنائی ہوئی ہے۔ اس موضع میں باقی سب لوگ غدار ہیں۔ میں ایک صرف بندہ، چند ایک اور فرد میرے ساتھ ہیں۔ میری عمر صرف ۱۱ سال ہے۔ شہید محمد مالک کے ایصالِ ثواب کے لئے رات کو قرآن شریف پڑھتا ہوں۔ آپ صرف میرے حق میں جلسہ میں دعا کر دیں۔مجبور ہوں ملاقات کی جرات نہیں ہو سکتی۔ آپ کی عمر دراز کرے۔ آمین۔

ممتاز حسن

(مہری آباد)

1942
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جیسے لیا تھا ہندوستان ویسے ہی لیں گے پاکستان
از دفتر بچہ مسلم لیگ گڈہی پختہ ضلع مظفر نگر۔ یو۔پی۔
مسلم لیگ زندہ باد، قائد اعظم محمد علی جناح زندہ باد

سالارِ قوم ! قائد اعظم، السلام علیکم

بچہ مسلم لیگ گڈہی پختہ کی طرف سے آپ کی خدمت میں یہ التماس ہے۔ گڈہی کا بچہ بچہ بلکہ تمام ہندوستان کا مرد و زن مانتا ہے کہ واقعی آپ سالارِ قوم ہیں کیوں کہ آپ نے سالاروں جیسا کام کیا ہے۔
آپ نے ہمارے سامنے پاکستان کا دروازہ صاف کھول دیا ہے اس میں گھسنا ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم پاکستان کے اوپر اپنی جان اور مال تک نچھاور کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان کے درمیان حائل ہونے والے کے لئے ہم زہر مار ثابت ہوں گے۔ہمارے اندر وہ ولولہ اور جوش ابھی تک بہت کچھ باقی ہے جو کہ ہمارے بزرگوں میں تھا جن سے تاریخیں لبریز ہیں۔غازی محمد بن قاسم نے تیرہ سال کی عمر میں اور مٹھی بھر مسلمانوں کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں دشمنوں کو تہ تیغ کر دیا۔ یرموک کے میدان میں حضرت خالد بن ولید نے ساٹھ مسلمانوں کے ساتھ ساٹھ ہزار کفاروں کا وہ مقابلہ کیا کہ دشمنوں کے پیر اکھاڑ کر فتح یاب ہوئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے درہ خیبر کو الٹ کر نیست و نابود کر دیا تھا۔ ہماری رگوں میں بھی وہ جوش ولولہ اور خون ابھی موجود ہے۔

مسلمان بہت دنوں تک سوئے اب جاگنا شروع ہوئے ہیں۔ وہ ہندو اور انگریز کی غلامی کبھی قبول نہیں کر سکیں گے۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت بھوکے شیر کی مانند ہے۔ کسی نے ذرا چھیڑا اور اس نے اس کے چھیچڑے اڑائے۔ خبردار کر دو کفاروں کو کہ وہ ہمارے راستے میں حائل نہ ہوں۔ ورنہ تہہِ تیغ کر دئیے جاو¿ گے۔جیسے کمان سے نکلا ہوا تیر اور بندوق سے نکلے ہوئے چھرے واپس نہیں آتے ویسے ہی مسلمانوں کا قول یعنی پاکستان واپس نہیں ہو سکتا یہ ضرور بن کر رہے گا چاہے سر قلم ہو جائیں۔ اس کے درمیان میں حائل ہونے والا شخص اسی سزا کا مستحق ہو گا اور وہی سزا دی جائے گی جو کہ دین ِ اسلام کی توہین کرنے والے شخص کی ہوتی ہے۔
ہمارے گاوں میں بازار نہ ہونے کی وجہ سے ہم کتابوں سے محروم رہتے ہیں صرف دو ایک اخبارات ’منشور ‘اور ’احسان‘ وغیرہ پڑھنے آتے ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو چند ایک کتابیں نصیحت آمیز ارسال کریں۔

طیب حسن
(گڈہی پختہ)

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments