بکاؤ ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی: عمران خان کی سیاسی دیانت یا چال


پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سینیٹ کے انتخاب میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے بیس رکان صوبائی اسمبلی کو نہ صرف پارٹی سے علیحدہ کرکے خیبر پختون خوا میں اپنی پارٹی کی حکومت کے لئے خطرات کو دعوت دی ہے بلکہ ملک کے سیاسی مزاج میں خود احتسابی کی ایک نئی مثال قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں چونکہ صرف چھ ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور پرویز خٹک کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے اور اسے منظور کروانے کے دورانیے کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو چند روز سے زائد کام کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ اس لئے اپوزیشن پارٹیاں انتخابات سے قبل تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے کی بجائے انتخابات میں اسے شکست دینے کی حکمت عملی بنانے پر توجہ دیں گی۔ کرپشن اور ووٹ بیچنے کے الزامات کی زد میں آئے ہوئے بعض پرجوش ارکان نے ضرور یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاسکتے ہیں۔ ان ارکان نے عمران خان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مختلف تاویلات پیش کی ہیں۔ تاہم ان سب وضاحتوں اور قیاس آرائیوں کے باوجود عمران خان کے سیاسی حوصلہ کی تعریف کرنا چاہئے کہ انہوں نے اپنے تئیں ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کی مہم کے ذریعے اپنی پارٹی میں موجود ’بدعنوان‘ عناصر سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی ہے۔

پنجاب کی حکمران مسلم لیگ (ن) اعلان کرنے اور گزشتہ ماہ کے دوران پارٹی سے دغا کرنے والے اراکین پنجاب اسمبلی کے خلاف تحقیقات کے باوجود پارٹی میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ سے خوفزدہ ہوکر ان اراکین کے خلاف کارورائی کرنے سے باز رہی ہے اور اس معاملہ کو کسی حد تک دبا دیا گیا ہے۔ واضح رہے گزشتہ ماہ کے دوران سینیٹ کے انتخابات میں خیبر پختون خوا اسمبلی میں تحریک انصاف اپنی شرح نمائندگی کے لحاظ سے سینیٹر منتخب کروانے میں ناکام رہی تھی کیوں کہ اس کے متعدد ارکان نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دے کر انہیں کامیاب کروایا تھا۔ اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اپنی سیاسی نمائندگی اور قوت کے لحاظ سے صوبے سے سینیٹ کی کل بارہ نشستوں پر کامیابی حاصل ہونی چاہئے تھی لیکن اس کے چودہ کے لگ بھگ ارکان نے پارٹی سے بے وفائی کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چوہدری سرور کو ووٹ دے کر کامیاب کروایا تھا۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) پنجاب سے سینیٹ کی صرف گیارہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ عمران خان نے بیس ارکان کو پارٹی سے نکال کر سیاسی بددیانتی کے خلاف کارروائی کرکے غیر روایتی اور خوش آئیند اعلان کیا ہے ۔ لیکن جب وہ چوہدری سرور کے انتخاب کے معاملہ میں خاموش رہتے ہیں اور دوسری پارٹیوں کو اپنے ’بد دیانت‘ ارکان کو تحریک انصاف ہی کی طرح نکال باہر کرنے کا فیصلہ کرنے کا چیلنج بھی کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی کرپشن اور اقتدار پرستی کا پرانا قصہ سناتے ہیں تو ان کی باتیں ناقابل فہم اور سیاسی شعبدہ بازی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔

بدعنوانی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا یکساں طور سے گناہ گار اور قصور وار ہے۔ اسی طرح سینیٹ کے انتخاب میں اگر ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت ہوئی ہے اور بقول عمران خان کے فی رکن چار کروڑ روپے تک ادا کئے گئے ہیں تاکہ ارکان اپنی پارٹی سے غداری کرکے مخالف پارٹی کو ووٹ دیں تو ان خریدے ہوئے ووٹوں کی بنیاد پر بننے والا سینیٹر بھی اتنا ہی بد عنوان، گناہ گار اور ناقابل قبول ہو نا چاہئے۔ لیکن عمران خان ، چوہدری سرور کے سینیٹ کا رکن بننے میں سامنے آنے والی بد عنوانی کو دیکھنے، سمجھنے اور قبول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ اس بے قاعدگی کا ذکر بھی گول کرگئے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی سے سیٹ جیت کر تحریک انصاف نے شیر کے منہ سے نوالہ چھینا ہے جو ایک ’قابل قدر ‘ کارنامہ ہے۔ جو کام خیبر پختون اسمبلی میں غلط ہے اور اس کی سزا دینے کے لئے انہوں نے اپنے ڈیڑھ درجن ارکان اسمبلی کو شدید سیاسی مقابلہ بازی کے باوجود فارغ کردیا اور یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ ان کے خلاف قومی احتساب بیورو کو رپورٹ بھی کی جائے گی۔ لیکن پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ چوری کرنے والے سینیٹر کو قبول کرکے افسوسناک دوہرا معیار قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح بظاہر ایک اچھا سیاسی اقدام بھی شکوک و شبہات کا نشانہ بن رہا ہے اور عمران خان کے تازہ اعلان کے بارے میں نت نئے دعوے سامنے آرہے ہیں۔ پارٹی سے نکالے جانے والے معتدد ارکان نے کہا ہے کہ انہیں تو پارٹی سے پہلے ہی علیحدہ کیا جاچکا ہے یا وہ پارٹی چھوڑ چکے تھے اس لئے انہیں اب پارٹی سے نکالنے کا اعلان کرنا سیاسی دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ جن ارکان کو اچانک پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا گیا ہے ، وہ خود ہی پریس کانفرنس کرکے پارٹی چھوڑنے والے تھے لیکن اس بارے میں تحریک انصاف کی قیادت کو خبر ہوگئی اور منحرف ارکان کے اعلان سے پہلے ہی عمران خان نے پریس کانفرنس کرکے سیاسی طور سے سرخرو ہونے کی کوشش کی ہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ کے اصولی فیصلہ سے اتفاق کرتے ہوئے، ان سے البتہ یہ سوال پوچھنا ضروری ہے کہ ان کے نزدیک سیاسی بدعنوانی کا بنیادی اصول کیا ہے۔ جن لوگوں نے تحریک انصاف کی قیادت کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دیا وہ تو رشوت خور اور بدعنوان ٹھہرائے گئے ہیں لیکن ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سینیٹرز کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے۔ کیا یہ سینیٹرز ۔۔۔۔ جو عمران خان کے بقول صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو کثیر مقدار میں رشوت دے کر منتخب ہوئے ہیں ، عمران خان کے نزدیک پارسا ہیں اور قومی مفادات کا ایمانداری سے تحفظ کرنے کے اہل ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی اہم ہو گا کہ تحریک انصاف نے سینیٹ کے چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مسلم لیگ (ن) کو شکست دی۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹرز میں وہ سینیٹرز بھی شامل ہوں گے جو رشوت کے روپے سے سینیٹ کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ تحریک انصاف نے نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو شکست دینے کے لئے ایسے بدعنوان سینیٹرز کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیا یہ فیصلہ سیاسی بدعنوانی یا سیاسی بددیانتی کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہوجاتے ہیں کہ عمران خان کا ایک نکاتی ایجنڈا بظاہر ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہے ۔ اس مقصد کے لئے وہ گزشتہ پانچ برس سے قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر اپنے فرائض فراموش کرکے احتجاج کی سیاست کررہے ہیں اور نواز شریف کو نااہل قرار دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور اب ان کا اعلان ہے کہ اس کے بعد شہباز شریف اور آصف زرداری کی باری ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان سب لوگوں کی جگہ جیل کی کوٹھری ہے۔ ایسے ایماندار اور ہر قسم کی آلائش سے پاک سیاست کے دعوے دار سیاست دان کو یہ جواب بہر صورت دینا ہو گا کہ خواہ کسی بھی مقصد سے ہو لیکن جو سیاست دان بدعنوانوں کے ساتھ ملک کر سیاسی فیصلے کرنے میں قباحت محسوس نہیں کرتا، اسے ایماندار اور اصول پسند کیسے کہا جاسکتا ہے۔

یہ حقیقت بھی اب اظہر من الشمس ہے کہ مسلم لیگ کے علاوہ پیپلز پاٹی کے متعدد الیکٹ ایبلز سیاسی موسم میں تبدیلی کے ساتھ تحریک انصاف کا رخ کر رہے ہیں اور بنی گالہ میں اپنی پارٹیوں سے منحرف ہونے والے اراکین اسمبلی روزانہ کی بنیاد پر عمران خان سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں سب سے پہلے جو وعدہ لیا جاتا ہو گا وہ آئندہ انتخابات میں کسی مخصوص حلقہ سے پارٹی ٹکٹ کا حصول ہے۔ اس مقصد سے ہی یہ لوگ پرانی پارٹی چھوڑتے بھی ہیں۔ ان لوگوں کو ’ایڈجسٹ‘ کرنے کے لئے پارٹی کے ساتھ وابستہ دیرینہ ساتھیوں کو نظر انداز کرنا اور نئے الیکٹ ایبلز کے مطالبے کو مان لینا وقت اور انتخاب کی ضرورت قرار دی جا سکتی ہے۔ لیکن اس قسم کے فیصلے کرتے ہوئے تحریک انصاف کو مسلسل ’نئے پاکستان‘ کے پر فریب نعرے سے دور لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پارٹی میں انتخاب کی روایت مستحکم کرنے کے وعدے سے دستبردار ہونے کے بعد عمران خان اب ٹکٹوں کی تقسیم کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں۔ اس لئے وہ ذاتی طور پر یہ بتانے کے پابند ہیں کہ نئے لوگوں کو پارٹی کے امید وار بنانے کی صورت میں وہ بد عنوانی کے مرتکب ہوں گے یا موقع پرستی کے۔ دو عشروں پر محیط سیاسی سفر میں اگر وہ بھی آصف زرداری کی مصلحت پسندی کا گر سیکھ رہے ہیں تو یہ ان کے سیاسی اقتدار کے لئے تو اچھی خبر ہو سکتی ہے لیکن تحریک انصاف کے ذریعے پاکستان میں انقلاب برپا کرنے کا خواب دیکھنے والوں کی امیدوں کا ایک بار پھر خون ہوگا۔

آزمائے ہوئے سیاسی پیادوں کے ساتھ نیا پاکستان تو تعمیر نہیں ہو سکتا البتہ ایک نیا چہرہ ضرور وزیر اعظم کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔ جیسا کہ سینیٹ کے چئیرمین کے طور پر صادق سنجرانی نمودار ہوئے تھے۔ کوئی بتائے کہ اس انتخاب سے بلوچستان کی محرومیاں کس حد تک کم ہو چکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali