امریکہ میں بچوں کی میڈیکل تعلیم کے بارے میں کچھ نکات


کئی لوگوں میں یہ تصور عام ہے یہاں تک کہ کافی سارے ڈاکٹر خود بھی یہ سمجھتے ہیں کہ چائنا، پاکستان، انڈیا یا کریبین آئی لینڈ میڈیکل اسکولوں میں بھیجنے سے فائدہ ہوگا اور وہ اپنے بچوں کے لئیےبھی ایسا کریں۔اس طرح ٹائم بچے گا اور پیسے بھی بچیں گے۔ امریکہ میں ہائی اسکول 12 سال کا ہوتا ہے، اس کے بعد 4 سال کا انڈر گریجویٹ کالج اور پھر چار سال کا میڈیکل کالج اور اس کے بعد تین سال کی ریزیڈنسی جس میں تنخواہ ملنا شروع ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں 10 سال کا ہائی اسکول ہوتا ہے، اس کے بعد دو سال کا پری میڈ اور پھر پانچ سال کا میڈیکل کالج اور اس کے بعد ایک سال کی ہاؤس جاب۔ ہاؤس جاب کئیے بغیر بھی آپ امریکہ میں ریذیڈنسی کرسکتے ہیں۔ میڈیکل اسکول ختم کرنے کے بعد 3 امتحان پاس کرکے سرٹیفیکٹ ملتا ہے جس کو جمع کرا کے آپ ریزیڈنسی کے لئیے اپلائی کرسکتے ہیں۔ ریزیڈنسی میڈیکل ڈاکٹرز کی سینئر ڈاکٹرز کی زیر نگرانی تربیت کو کہتے ہیں۔ یہ عموماً 3 سال کی ہوتی ہے۔ یہ تربیت تمام ڈاکٹروں کے لئیے لازمی ہے چاہے انہوں نے کہیں سے بھی تعلیم حاصل کی ہو۔

اگر سیب کو سیب کے برابر تولا جائے اور سب کچھ پلان کے مطابق چلے تو امریکہ کے مقابلے میں پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے آپ 3 سال بچا سکتے ہیں۔ اور پیسے بھی یقیناً بچا سکتے ہوں گے کیونکہ یہاں پڑھائی کافی مہنگی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اتنا سادہ نہیں ہے جیسے باہر سے دکھائی دیتا ہے۔ یہ ضرور دیکھنا چاہئیے کہ یہ 3 سال بچا کر کیا کھویا جا رہا ہے اور یہ بھی کہ ان 3 سال کی لانگ ٹرم میں کیا قیمت ادا کی گئی ہے۔ امریکہ میں میڈیکل کی تعلیم نہایت مہنگی ہونے کی وجہ سے ہی یہاں کے ایک تہائی ڈاکٹر باہر کے ملکوں سے لئیے جاتے ہیں اور یہ ایک لمبا اور پیچیدہ پروسس ہے۔ اگر آپ انڈیا یا پاکستان کے شہری ہیں اور وہاں سے میڈیکل کیا ہے تو وہ دوسری بات ہے۔اگر کوئی بھی امریکی شہری نہیں ہے یا اس کے پاس گرین کارڈ نہیں ہے تو ان کو امریکہ کے میڈیکل کالج میں داخلہ ملنا نہایت مشکل بلکہ ناممکن کے قریب ہے۔ اگر آپ امریکہ میں ہیں اور آپ کے بچے پڑھائی میں اچھے ہیں اور وہ اسکالرشپ حاصل کرسکتے ہیں تو بہتر ہے کہ انہیں امریکہ میں ہی پڑھایا جائے۔ اگر پڑھائی افورڈ کرنے کا مسئلہ ہو تو ظاہر ہے کہ جہاں سے بھی تعلیم حاصل کرسکیں کرلیں لیکن اگر پیسے مسئلہ نہیں ہیں تو یہ سو درجے بہترہے کہ اپنے بچوں کو امریکہ میں پڑھائیں۔

یہ ہر بچے کے اپنے رجحان پر منحصر ہے کہ وہ کس شعبے میں مہارت حاصل کرسکتے ہیں۔ انسان کو وہی شعبہ اپنے لئیے چننا چاہئیے جس میں اس کی دلچسپی ہو اور جس میں وہ خوشی محسوس کرے۔ امریکہ کے ہائی اسکول اور پاکستان کے ہائی اسکول میں کافی فرق ہے۔ وہ تو مجھے اس وقت اندازہ ہوگیا تھا جب میری چھوٹی بہن نے کہا کہ ہوم ورک میں مدد کریں۔ وہ آٹھویں میں تھی اور میں میڈیکل کالج میں دوسرے سال میں۔ اگر میں نے فزیالوجی کی کتاب میں ڈی این اے کا اسٹرکچر نہ پڑھا ہوتا تو میں اپنی آٹھویں کی اسٹوڈنٹ بہن کی مدد نہیں کرسکتی تھی۔ میرا بیٹا دسویں ‌کلاس میں ‌ہے۔ وہ ایڈوانس بائیولوجی کا ایک کورس کررہا ہے۔ مجھے اس کے ساتھ پڑھنا اچھا لگتا ہے کیونکہ بہت پرانی پڑھی ہوئی چیزیں دہرانے کا موقع ملتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جینوم وائڈ اسوسی ایشن اسٹڈی اور ایوولیوشن کی پیچیدہ بائیولوجی یہ بچے اتنی جلدی پڑھ رہے ہیں۔ یہ لوگ خوش قسمت ہیں ‌کیونکہ ہمارے زمانے میں ‌یہ معلومات ابھی تک انسانوں ‌نے حاصل کی ہی نہیں‌ تھیں۔ انڈر گریڈ ایجوکیشن ٹائم کا زیاں نہیں ہے۔ بیچلر یا ماسٹرز کی ڈگری لینے کے لئے تھیسس لکھنی ہوتی ہے ایک کامیاب تھیسس لکھ کر پروفیسرز کے سامنے اس کا دفاع کرتے ہیں اس کے بعد ہی ان کو پاس کیا جاتا ہے۔ تھیسس ایک ریسرچ پراجیکٹ ہے جو کہ خود ایک نہایت اہم تجربہ ہے۔ اس تجربے کی بنیاد پر ہی آگے چل کرآپ زیادہ اہم اور بڑی ریسرچ کرنے کے لائق بنتے ہیں جس سے دنیا کو بدلا جاتا ہے۔

جب پاکستان کے میڈیکل کالج میں اسٹوڈنٹس پہلے دو سال میں اناٹومی اور فزیالوجی پڑھ رہے ہوتے ہیں، امریکہ کے اسٹوڈنٹس تمام مضامین پڑھ کر ختم کرچکے ہوتے ہیں۔ اناٹومی پر انہوں نے صرف 3 مہینے صرف کئیے وہ اس لئیے کہ بنیادی انسانی اناٹومی اور فزیالوجی تو وہ چار سال کے انڈر گریڈ کالج میں پڑھ چکے ہیں جس کو کچھ لوگ غیر اہم سمجھ رہے ہیں۔ اگر آپ کلاس روم میں بیٹھیں تو بھی آپ کو فرق پتا چل جائے گا، ایک طرف انسائکلوپیڈیا کی طرح ساری ہڈیوں اور پٹھوں کے نام یاد کرائے جارہے ہیں تو دوسری طرف یہ سکھایا جاتا ہے کہ چوٹ سے کیا نقص پیدا ہوگیا، اس میں کون سے اسٹرکچر شامل تھے اور اس کو کیسے ٹھیک کیا جائے۔ اس کو اپلائڈ اناٹومی کہتے ہیں یعنی کہ معلومات کو اصلی زندگی پر کیسے لاگو کیا جائے۔ یہ فرق شائد چھوٹا سا معلوم ہو لیکن اگر ایک ٹیچر آپ کو گاڑی کے 6 ہزار پرزوں کے نام یاد کرا رہا ہے تو میرے خیال میں دوسرا ٹیچر چننا چاہئیے جو یہ بتائے کہ گاڑی کیسے چلتی ہے، اس کو روڈ کے اصولوں کے تحت درست طریقے سے کیسے چلایا جائےاور اگر اس میں خرابی ہو تو اس کو کیسے تلاش اور ٹھیک کریں۔

جب پاکستانی میڈیکل اسٹوڈنٹس پہلی کلاس میں پہنچتے ہیں تو ان کو میڈیکل کی زبان نہیں آتی، اس کو وہ آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ سیکھتے ہیں۔ جبکہ پری میڈ میں امریکہ میں ایک الگ سبجیکٹ ہے جس میں صرف میڈیکل کی زبان سکھائی جاتی ہے۔اس کو میڈیکل ٹرمینالوجی کہتے ہیں۔ جیسے کہ میا- ایم آئی اے، میا جس لفظ کے آخر میں آئے اس لفظ کا تعلق خون سے ہے جیسے کہ انیمیا یعنی کہ خون کی کمی اور پولی سائتھیمیا یعنی کہ خون کے سرخ جسیموں کی زیادتی۔ اوما، او ایم اے، اوما جس لفظ کے آخر میں آئے اس کا تعلق ٹیومر سے ہے جیسے کہ کارسینوما اور ٹیراٹوما وغیرہ۔ پل کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔ ایک دن کیا ایک لمحہ بھی ہم پیچھے نہیں‌ لے جا سکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ چلنا ضروری ہے۔ اس لئیے بت گرانے ہوں‌ گے۔ نیوی گیشن سسٹم کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل اور اپ ڈیٹ کرنا ہوتا ہے کیونکہ دنیا کا نقشہ تو بدلتا رہتا ہے اگر اس میں پرانا نقشہ لے کر چلیں گے تو آج کی دنیا میں کہیں پر پل بن گئے ہیں اور کہیں دیواریں۔ کہیں دیوار میں جا کر ٹکر لگے گی اور کہیں ہم بلاوجہ دریا تیر کر پار کر رہے ہوں گے۔

تبدیلی کی سطوحات 5 ہیں۔ پہلی سطح وہ ہے جہاں لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ کوئی پرابلم موجود بھی ہے۔ دوسری سطح وہ ہوتی ہے جس میں ان کو معلوم تو ہوچکا ہوتا ہے کہ ایک مسئلہ موجود ہے لیکن انہوں نے ابھی اس پر کوئی عمل شروع نہیں کیا ہے۔ تیسری سطح وہ ہے جس میں تبدیلی کی تیاری کی جاتی ہے۔ چوتھی سطح تبدیلی لانے کی ہے اور پانچویں سطح اس بدلے ہوئے روئیے کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔ اگر سوچا جائے تو پہلی کی طرح پانچویں سطح بھی ایک مشکل کام ہے۔لیکن چینی کہاوت کے مطابق ایک ہزار میل کا سفر بھی ایک قدم سے ہی شروع ہوتا ہے۔

Stages of Change

Precontemplation

Contemplation

Preparation

Action

Maintenance

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4