امریکہ میں بچوں کی میڈیکل تعلیم کے بارے میں کچھ نکات


جو بچے امریکہ میں کالج جاتے ہیں، وہ امریکی لوگوں کو، یہاں کی تاریخ کو، معاشرے کو، ان کی نفسیات کو اور ان کے مسئلوں کو ان لوگو ں سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اپنا وقت کہیں اور گزارا ہو۔ یہ مثال ہر جگہ کے لئیے برابر ہے، چاہے ہم انڈیا میں ہوں، چائنا میں، رشیا میں یا یورپ میں، جہاں بھی ہوں وہاں کی کامیابی کے لئیے اس جگہ اور اس کے لوگوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ کچھ لوگوں کے لئیے یہ زیادہ اہمیت کی بات نہ ہو کیونکہ وہ شائد یہی سوچتے ہوں کہ کام صرف اس بارے میں ہوتا ہے کہ آپ نوکری کریں، تنخواہ لیں اور گھر جا کر اپنی زندگی گزاریں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ریزیڈنسی حاصل کرنے کے لئیے، ہسپتال کی نوکری یا اپنی جاب میں کامیابی کے لئیے ضروری ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ اور جن کے لئیے آپ کام کر رہے ہیں وہ آپ کو پسند کریں اور آپ کے مقابل دوسرے لوگوں پر آپ کو ترجیح دیں اور چنیں۔ جب درخواست یا انٹرویو کے بعد یہ جواب ملتا ہے کہ آپ کو نہیں چنا گیا تو یہ ایک تکلیف دہ لمحہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی جگہ وقت گزارنے سے ہم آہستہ آہستہ وہاں کے لوگوں کے ساتھ ایک ماضی ڈیویلپ کرتے ہیں۔

جب کوئی مریض کہتا ہے کہ ہم ٹرنر فال میں تھے یا مجھے ہارٹ اٹیک ہوا جب اوکلاہوما سٹی میں بم دھماکہ ہوا تھا تو میں ان کی یہ یاد شیئر کرسکتی ہوں کیونکہ ہم لوگ پچھلے 20 سال سے اوکلاہوما کے شہری ہیں۔ کسی بھی ملک میں‌ رہنے والوں ‌کو اسی ملک کے سماج کے تانے بانے میں‌ سو فیصدی حصہ بٹانا ہوتا ہے ورنہ آپ سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچے میں‌ اجنبی کی حیثیت اختیار کریں ‌گے۔ میری ایک خاتون سے بات ہو رہی تھی جو خود کسی اور ملک کی ہیں‌ لیکن انہوں‌ نے افسوس سے کہا کہ عراق میں‌ فوجیوں‌ کو اتنے مہینوں‌سے تنخواہ نہیں‌ ملی ہے اور اپنے شہر میں‌ کیا ہورہا ہے وہ ان کو پتا نہیں۔ امریکہ میں پیدا ہوئے اور بڑے ہوئے بچوں کو بھی اکثر ان کے دیسی والدین ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں پڑھنے کے لئے۔ ان میں سے کچھ والدین نے خود کبھی اسکول نہیں دیکھا اور کچھ خود ڈاکٹر بھی ہیں۔ کچھ بچے مکمل کرلیتے ہیں۔ ایک کو میں جانتی ہوں جس پر اس کے ماں باپ نے لاکھوں ڈالر خرچ کئے اور بچی وہاں نہ صرف سخت بیمار پڑ گئی بلکہ فیل بھی ہوئی، آخر وہ بیچ میں سے ہی واپس لے آئے اور وقت بچنے کے بجائے اور لمبا ہوگیا۔

ایک اور لڑکی تھی جس کے خوبصورت اور غیر ملکی ہونے کی وجہ سے وہ نمایاں ‌ہوگئی۔ اس کے پیچھے نہ صرف سارے کالج کے لڑکے یہاں تک کہ کالج کے پرنسپل تک اپنا رشتہ دینے کے لئیے تیار تھے، اس کو چوتھے سال میں چھوڑ کر آدھی رات میں ہاسٹل سے نکل کر ملک چھوڑنا پڑا کیونکہ کچھ تو دبئی تک جہاز میں اس کے پیچھے آتے تھے۔ اس نے معلوم نہیں ‌کہاں ‌سے میرا ای میل ڈھونڈا اور میسج کیا کہ پولیس سرٹیفکٹ چاہئیے۔ ان لوگوں‌ کا پاکستان میں‌ کوئی رہتا بھی نہیں ‌تھا۔ تو میں ‌نے اس کے لئیے اپنے روابط استعمال کر کے یہ سرٹیفکٹ منگوا دیا۔ وہ آج بھی کہتی ہے کہ میرا ڈاکٹر بننے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ یعنی کسی کو پسند کرنے میں ‌کوئی برائی نہیں لیکن لوگوں‌ کو سمجھنا چاہئیے کہ آپ اس طرح اسٹوڈنٹس کو ہراساں ‌نہیں ‌کر سکتے۔ کیا اس طرح‌ آپ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنا رہے ہیں؟ بچوں‌ کو کہاں‌ پڑھنے بھیجیں‌ یہ فیصلہ تمام حقائق کو سامنے رکھ کر ہی کیا جائے تو بہتر ہے اور جواب انفرادی حالات پر مبنی ہے۔

میری کئی دوست ہیں‌ جنہوں‌ نے میڈیکل پڑھ کر نہ جاب کی اور نہ شادی۔ آپ لوگ مناسب رشتوں‌ کے انتظار میں‌ بیٹھے بیٹھے اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ ساری دنیا میں‌ خواتین کے لئیے کافی گرانٹس نکل آئی ہیں۔ امریکہ نکل جائیں‌، یورپ نکل جائیں۔ دنیا بہت بڑی ہے۔ وہ چار دیواروں‌ سے بہت آگے ہے۔ آپ ان گرانٹس کے لئیے اپلائی کریں‌، آگے پڑھیں اور اپنے پیروں‌ پر کھڑی ہو جائیں۔ اپنی زندگی اپنی مرضی سے خوشی سے جئیں۔ حکیم محمد سعید کے رسالے کی بات یاد رکھیں۔ ”وقت روئی کے گالوں کی طرح ‌ہے، علم و حکمت کے چرخے میں‌ کات کر اس کا قیمتی لباس بنا لو ورنہ جہالت کی آندھیاں ‌اسے اٹھا کر کہیں‌ کا کہیں‌ پھینک دیں ‌گی۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4