امریکہ میں بچوں کی میڈیکل تعلیم کے بارے میں کچھ نکات


امی آپ کو پتا ہے کہ امریکی لیجسلیچر میں ‌کتنی کم خواتین ہیں؟” میری بیٹی نے کہا۔ اسی لئیے تو میں ‌کہتی ہوں ‌کہ آپ سپریم کورٹ جسٹس بن جائیں! اس سے بحث میں ‌کوئی نہیں‌ جیت سکتا اور اس خوبی کو مفید طریقے سے استعمال کرنا چاہئیے۔ میرے خیال میں‌ وہ اگر قانون دان بنے گی تو کوئی کیس نہیں ‌ہارے گی۔ لیکن مجھے ڈاکٹر بننا ہے اس نے کہا۔ بیٹا دیسی والدین یہی چاہتے ہیں‌ کہ ان کے بچے ڈاکٹر بن جائیں۔ میرے خیال میں‌ صرف ان بچوں‌ کو ڈاکٹر بننا چاہئیے جن کو میڈیسن میں ‌دلچسپی ہو۔ باقی شعبے بھی اہم ہیں۔ اس لئیے ہماری طرف سے کوئی ایسا دباؤ نہیں‌ ہے اس لئیے جو دل چاہے پڑھ لو۔ ایک امریکی بچے کے لئے یہ دنیا کھلا آسمان ہے جس میں ‌وہ ترقی کر سکتے ہیں۔ ہمارے لئیے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے پیروں ‌پر کھڑے ہوں ‌اور معاشرے کے مفید رکن بنیں۔

میرے بڑے ماموں‌ محمد حسیب صدیقی پہلے پاکستانی‌ ہیں‌ جنہوں ‌نے انگلش میں‌ پی ایچ ڈی کی تھی۔ جب ہم چھوٹے بچے تھے تو میں‌ نے ان سے سوال کیا کہ وہ پاکستان جا کر کیوں ‌نہیں ‌پڑھاتے تو انہوں‌ نے مجھ سے کہا تھا کہ جس طرح‌ یہاں‌ یونیورسٹی میں‌ ڈسکشن اور پڑھائی ہوتی ہے ویسے آپ وہاں ‌نہیں‌ پڑھا سکتے۔ اس وقت مجھے ان کی یہ بات سمجھ میں‌ نہیں‌ آئی تھی۔ جن ٹیچرز کے پڑھانے کی وجہ سے ہم لوگ آج یہاں‌ تک پہنچ پائے ان کے تہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اس پیپر کا مقصد استادوں‌ کی تذلیل نہیں‌ بلکہ تعمیری تنقید کے ساتھ سب کو اوپر اٹھانا ہے۔

تعلیم کا طریقہ جس طرح‌ سے مختلف ہے وہ مجھے خود ان دونوں‌ نظاموں‌ سے گذرنے کے بعد ہی معلوم ہوا۔ وہاں‌ پاکستان میں‌ ہم انسائکلوپیڈیا کی طرح‌ پڑھتے تھے وہ بھی پہلے سے کسی کا لکھا ہوا۔ ایک مرتبہ میں ‌نے اردو کی تاریخ پر پوسٹر بنایا لیکن وہ ٹیچر نے ہٹا دیا کہ یہ آؤٹ آف کورس ہے۔ یہاں‌ پر ہم نے خود پوسٹر بنائے، کیس رپورٹ لکھیں، ریسرچ کرنا سیکھا، اسٹڈی پروٹوکول بنانا سیکھا ایسے سوالوں‌ پر جن کے جواب اس سے پہلے کسی نے نہیں‌ معلوم کئیے تھے۔ جو سوال کرنے کی اور تحقیق کرنے کی اور کچھ نیا تخلیق کرنے کی صلاحیت ہے وہ ہی امریکہ کی مضبوطی ہے۔ خالی ہوا میں‌ سے چیزیں‌ کیسے بنائیں، ایسی جکہ سے راستہ نکال لیں‌ جہاں‌ سے نہ کوئی گذرا اور نہ وہ پہلے موجود تھا یہ میں‌ نے ہارورڈ میں‌ ٹریننگ سے سیکھا۔

حکیم محمد سعید ایک رسالہ نکالتے تھے جس کا نام تھا نونہال۔ اس میں‌ ایک قول چھپا تھا جو مجھے آج بھی یاد ہے۔ ”وقت روئی کے گالوں کی طرح‌ ہے، علم و حکمت کے چرخے میں‌ کات کر اس کا قیمتی لباس بنا لو ورنہ جہالت کی آندھیاں‌اسے اٹھا کر کہیں‌ کا کہیں‌ پھینک دیں‌گی۔ ” اکثر لوگ مجھ سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ان کو اپنے بچوں کو پاکستان میڈیکل کالج پڑھنے کے لئیے بھیجنا چاہئیے؟ آج کا پیپر اس لئیے لکھا گیا ہے تاکہ اس موضوع کے بارے میں لوگوں کی سمجھ میں اضافہ ہو۔ یہ دھیان رہے کہ یہ معلومات ذاتی تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہیں اور کچھ جواب دس سال پرانے بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ اصول تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس بلاگ میں دی گئی معلومات پر تکیہ کرنے کی بجائے آپ مزید تحقیق جاری رکھیں۔ یہ معلومات ملکوں کے تمام میڈیکل کالجوں، اسکولوں اور ہسپتالوں پر لاگو نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کا مقصد کسی کی ہمت کم کرنا ہے۔

ریسرچ سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ انٹرنیشنل میڈیکل گریجوئیٹ ٹیسٹ میں اچھے سکور لیتے ہیں اور ان کے زیر علاج مریضوں کی صحت اور بہتری ان مریضوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی جو ان ڈاکٹروں کے زیر علاج ہوں جنہوں نے امریکہ میں میڈیکل کالج سے پڑھائی کی لیکن یہ یاد رہے کہ اس اسٹڈی میں صرف دل کی بیماری کے مریضوں کے ہسپتال کے علاج کے نتائج کا موازنہ کیا گیا ہے جن کے لئیے زیادہ تر ہسپتالوں میں اسٹینڈنگ آرڈر سیٹ ہوتے ہیں یعنی سب کو ایک ہی طریقے سے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ درخت میں‌ جتنا پھل ہو وہ اتنا ہی جھک جاتا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے مغربی استاد زیادہ تر اکڑو اور بدتمیز نہیں‌ تھے اور ان سے برابری کے لیول پر ڈسکشن ہوتی تھی۔

میری ایک دوست کراچی کے میڈیکل کالج سے پڑھی ہوئی تھی۔ اس کو سرجری میں‌ بہت دلچسپی تھی۔ کہنے لگی ایک مرتبہ ہم لوگ سرجری کی تیاری کررہے تھے تو میں‌ سنک پر ہاتھ دھونے گئی۔ میرے برابر ایک صاحب کھڑے تھے اور صابن ان کی طرف تھا۔ میں‌ نے ان سے کہا کہ صابن دے دیجئیے گا۔ یہ سن کر وہ میرے اوپر بری طرح‌ چلانے لگے۔ میں‌ پریشان ہوگئی کہ کہیں‌ یہ آدمی پاگل تو نہیں‌ ہے۔ پھر دوسرے لوگ لپک کر آگئے اور مجھے دور لے جا کر بتایا کہ یہ کوئی بڑے سرجن ہیں۔ جب میں‌ لندن گئی تھی ہارورڈ کی کانفرنس میں‌ تو وہاں‌ ایسے پروفیسر تھے جن کے نام پر سٹسٹکس کے فارمولوں‌ کے نام ہیں یعنی کہ انہوں‌ نے وہ ایجاد کئیے۔ کمپیوٹرز کی مدد سے اتنے زیادہ نمبروں‌ کو کیلکولیٹ کیا جاسکتا ہے جو صرف پچیس سال پہلے تک کوئی نہیں‌ کرسکتا تھا۔ دنیا مستقل بدل رہی ہے۔ نئی طرح‌ کی جاب ہیں‌ جو پہلے ہوتی بھی نہیں‌ تھیں۔ بہرحال ایک پروفیسر اپنے ریسرچ پروٹوکول پر لیکچر دے رہے تھے جس میں‌ وہ لوگ بلڈ پریشر کی دواؤں‌ کا ایک دوسرے سے موازنہ کریں‌ گے۔ ایک دوا ”رینن بلاکر” ہے۔ رینن ایک ہارمون ہوتا ہے جو گردوں‌ سے نکلتا ہے اور ایڈرینل غدود پر اثر ڈالتا ہے جہاں سے الڈوسٹیرون بنتا ہے جو خون کی نالیوں‌ میں‌ بلڈ پریشر بڑھا دیتا ہے۔ کچھ لوگوں‌ میں‌ ایڈرینل غدود میں‌ ٹیومر بن جاتا ہے جس میں‌ سے مستقل الڈوسٹیرون بنتا رہتا ہے اور اس کے جواب میں‌ گردے رینن نہیں‌ بناتے۔

ڈاکٹر کیم فیلوشپ میں‌میرے مینٹور تھے جنہوں‌ نے پرائمری ہائپر الڈوسٹیرون میں‌ کافی ریسرچ کی ہوئی تھی اور انہوں‌ نے کیپٹو پرل ٹیسٹ اور سیلین انفیوژن ٹیسٹ بھی ایجاد کئیے تھے جو ساری دنیا میں‌ اس بیماری کو تشخیص کرنے کے لئیے گولڈ اسٹینڈرڈ سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کیم کے مینٹور ڈاکٹر کان تھے جنہوں‌ نے کان سنڈروم بیان کیا تھا۔ وہ میڈیکل اسٹوڈنٹس کو معلوم ہوگا کہ کیا ہے۔ میں‌ نے ہاتھ کھڑا کیا اور ہارورڈ پروفیسر سے کہا کہ آپ لوگ پرائمری الڈوسٹیرون یا کان سنڈروم کے مریض ‌اپنی سٹڈی سے نکال دیں‌ کیونکہ ان میں‌ رینن ہوگا ہی نہیں‌ تو دوا سے کچھ اثر نہیں‌ پڑے گا۔ وہ پروفیسر اتنے ہمبل تھے کہ بولے اوہ ہم آپ کی طرح‌ ہوشیار نہیں‌ تھے اور اس بارے میں‌ تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا۔ ڈین بھی اگلی قطار میں‌ بیٹھے سن رہے تھے۔ شام میں‌ رائل کالج آف فزیشن اور سرجن میں‌ گالا ڈنر تھا وہاں ہارورڈ کے ڈین نے اپنی تقریر میں‌ اس بات کا ذکر کیا کہ آپ کی کلاس نے پرائمری ہائپر الڈوسٹیرون کے بارے میں‌ بات کی۔ یہ سن کر میری ٹیم کے ممبر ہنسنے لگے کیونکہ وہ ہماری ٹیم کی تعریف جو ہو گئی۔ اس واقعے کے بارے میں‌ بات کرنے سے یہ میں ‌بتانا چاہتی ہوں‌ کہ آپ دیکھئیے کہ جو لوگ نئی دریافتیں‌ کرتے ہیں‌ وہ ہر کسی کو بات کرنے کا اور مشورہ دینے کا موقع دیتے ہیں۔ اور اس فیڈ بیک سے وہ اپنی اسٹڈی کو اور بہتر بناتے ہیں۔ دنیا میں‌ کچھ بھی عظیم کرنے کے لئیے ہمارا جھکنا ضروری ہے۔ اکڑ کے خود کو ہی سب کچھ سمجھنے سے کچھ بننے والا نہیں ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4